#ترکوں کی مکمل آبادی.....
دنیا میں موجودہ ترکوں کی آبادی ایک تخمینے کے لحاظ سے 600 ملین (60 کروڑ) سے زائد بتائی جاتی ہے. علامہ ابن خلدون اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ "ترک دنیا کی سب سے بڑی قوم ہے, ان سے بڑی آبادی کسی دوسری قوم کی نہیں پھیلی۔"(تاریخ ابن خلدون)
ترک قوم کی تاریخ طوفان نوح کے بعد سے شروع ہوتی ہے جب حضرت نوح کے بیٹے یافث کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوتا ہے اور اس کا نام " ترک" رکھا جاتا ہے. یہی ترک, یافث بن نوح کی وفات کے بعد سربراہ بنتا ہے اور اسی سے بہت سی شاخوں میں موجودہ زمانے کی کئی قومیں جنم لیتی ہیں جیسے
"التائی, آزربائیجانی, بلقار, باشکیر, چوباش, کریمین قراتائی, قاغوز, قراچائی, قرا قلپق, قزاق, قرغیز, نوگایی, قشقایی, تاتار, ترکمن, ترکی ترک, نوبان, اوزبیک, یاقوت"
اس کے علاوہ کئی قدیم تاریخی قومیں جیسے
"دینگلینگ, بلغار, ارلات, شاتو, چوبان, گوک تورک, اوغوز تورک, خزر, خلجی, قپچاق, قارلق, تورگیش, ھون, کشن اور شنتو."
وہ آزاد ممالک جن کی سرکاری زبان ترکی اور اکثریت ترک قومیت رکھتے ہیں وہ درج زیل ہیں۔
1: ترکی
2: آزربائیجان
3: شمالی قبرس
4: ازبکستان
5: قزاقستان
6: ترکمنستان
7:جمہوریہ قرقیزستان
8: منگولیا
وہ ترک اکثریت ریاستیں جو انتظامی امور میں خودمختار ہیں اور سرکاری زبان ترکی استعمال کرتے ہیں. درج زیل ہیں:
1- جمهوری ترک آ لتای
2- جمهوری ترک حاکاس
3- جمهوری ترک تانوتوا
4- جمهوری ترک تاتارستان
5- جمهوری ترک چواشستان
6- جمهوری ترک قوردستان
7- جمهوری ترک داغستان
8- جمهوری ترک چیچنیا ( ترکان ان گوش )
9- جمهوری ترک ابغازیا
10- جمهوری ترک قره چای ( ترکان چرکس )
11- جمهوری ترک بالکار ( ترکان بارتای )
12- جمهوری ترک قاغوز(قاغوز ترک\ملداوی ترک, زیادہ تر عیسائی آرتھوڈوکس مذہب"
یہ بارہ ریاستیں ایسی ہیں جو ترک اکثریت رکھتے ہیں لیکن روس کے ماتحت صوبوں میں شمار ہوتے ہیں۔
وہ ممالک جن میں ترک کثیر تعداد میں موجود مگر اقلیت شمار ہوتے ہیں .درج زیل ہیں:
چین: جمہوریہ چین کا صوبہ سنکیانگ (Xinjiang) جس کا مرکز کاشغر ہے. 95% ترک آبادی رکھتے ہیں اور ترکوں کی آبادی سو ملین (دس کروڑ) سے متجاوز ہے. (چین کے ترکوں کی آبادی ایران کی کل آبادی سے زائد ہے)
افغانستان: افغانستان چار ہزار سالوں سے ترکوں کی حکومات کا مرکز رہا ہے. 1747 میں احمد شاہ ابدالی کے قبضے کے بعد سے اقتدار پشتونوں کو منتقل ہوگیا. افغانستان میں ترکوں کی کل آبادی دس ملین (ایک کروڑ+) سے زائد ہے جو افغانستان کی کل آبادی کے 35% سے زائد بنتا ہے
عراق اور سوریا: عراق میں ترک عباسی حکومت کے زمانے سے موجود ہیں. واضع رہے کہ عباسیوں کو اقتدار میں لانے میں اہم ترین کردار ادا کرنے والا ابو مسلم خراسانی ترک تھا. اور جنگ میں بھی خراسان کے لشکر سے ترک ہی آئے تھے.عباسی حکومت میں ترکوں کو اتنا رسوخ حاصل ہوچکا تھا کہ مامون الرشید نے ابتدا میں اپنا دارالحکومت بغداد سے ترکمنستان کے شہر مرو میں منتقل کرلیا تھا. معتصم باللہ کے زمانے میں ترک فوجیوں کے لیے سامرا نامی شہر آباد کیا گیا. بعد میں خلیفہ کا انتخاب بھی اکثر انہی ترک فوجیوں کے ہاتھ میں رہا. اور کئی عباسی خلفاء ترک سپاہیوں کے عتاب کا شکار ہو کر قتل کیے گئے. (تاریخ الخلفاء).. تو ترک اس زمانے سے عراق و شام میں موجود تھے. بعد میں سلجوقیوں نے عباسیوں سے تعلقات بنائے اور عباسیوں نے ایک زمانے میں یہ تمام علاقے فتح بھی کرلیے۔
موجودہ عراق و سوریا کی آبادی بارہ ملین سے زائد ہے'
پاکستان و ھندوستان: پاکستان میں ترکوں کی آمد قبل مسیح میں اوغوز خان سے شروع ہوئی جو کشمیر میں دو سال تک مقیم بھی رہے. بعدا محمود غزنوی, قطب الدین آیبیک, امیر تیمور, ظہیر الدین بابر اہنے ساتھ ہر لشکر میں کثیر تعداد میں ترک ساتھ لائے اور مستقل حکومت قائم کی. دونوں ممالک میں اب بھی ترکوں کی تعداد پانچ کروڑ سے زائد ہوسکتی ہے.
ایران میں ترکوں کی آبادی دو کروڑ سے بڑھ کر ہے
تاجیکستان میں ازبیک ترک کثیر تعداد میں ہیں
مصر, لیبیا, یمن, مراکش میں ترکوں کی آبادی تین ملین سے بڑھ کر ہے
یورپ کے ترکوں کی آبادی
امریکا میں سات لاکھ ترک رہائش پزیر ہیں
جرمنی میں ترکوں کی آبادی تیس لاکھ سے زائد ہے
جہاں جہاں ترکوں نے حکومت کی وہاں وہاں آج بھی ان کا نقش باقی ہے۔ 2003 میں امریکی اور یورپی زبان دانوں کی انجمن (A.M.T) کی ایک ریسرچ کے مطابق انگلش زبان کے 20% الفاظ, اٹلی زبان کے 40%, جرمن زبان کے 17% اور فرانسیسی کے 10% الفاظ ترک زبان سے لیے گئے ہیں۔
تمام گفتگو آخر میں شجرہ تراکمہ کے مصنف ابوالغازی بہادر خان کے ایک قول پر جا کر درست ٹہرتی ہے کہ
"روئے زمین پر کوئی راستہ ایسا نہیں جو قوم اوغوز (ترک) نے طے نہ کیا ہو اور کوئی زمین ایسی نہیں جہاں ترکوں کی سکونت نہ رہی ہو"
copy