۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حروف سب کے تابع نہیں ہوتے، مگر جس کی بات مان لیں، اس کا پھر بہت مان رکھتے ہیں۔ یہ تب ہی تخلیق ہوتے ہیں جب ان کے پیچھے متحرک سوچ اور سچی فکر موجود ہو، ان کی پاسداری کی جائے اور دل سے اپنایا جائے۔ حروف کی حرمت اور عظمت کا فہم رکھنے والے شاید ہی کچھ لوگ باقی ہیں، جن کو یہ پتہ ہے کہ لکھے ہوئے لفظ کی قیمت کیا ہوتی ہے اور یہ لفظ کس طرح آپ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
جمیل الدین عالی بھی ایسی ہی ایک تخلیقی شخصیت تھے، حروف جن کے تابع تھے۔ انہوں نے تمام زندگی حروف کو اپنی مرضی سے برتا، جس صنف سخن میں چاہا، وہاں پرو دیا۔ یہ ان کی خداداد صلاحیت تھی، جس میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔
جمیل الدین عالی پاکستان کے عظیم شاعر ثابت ہوئے۔ انہوں نے مختلف صنف سخن اور ان کی جہتوں میں کام کیا، جن میں غزلیں، نظمیں، دوہے، گیت، ملی ترانے اور کالم نویسی شامل ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان سے بھی وابستگی رہی۔ انہیں دوہوں اور ملی ترانوں کی بدولت زیادہ شہرت ملی۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے ساتھ ساتھ تخلیقی طور پر بھی بے حد متحرک رہے۔ انہوں نے معروف ادیب اور بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب کے ساتھ کام کیا، رائٹرز گلڈ کی بنیاد رکھی، ادیبوں اور شعراء کی فلاح و بہبود کے لیے کام کیا، اور تقریباً 6 دہائیوں تک انجمن ترقی اردو کے صدر رہے۔
جمیل الدین عالی صرف ایک ادبی شخصیت ہی نہیں، بلکہ اردو شعر و ادب کا ایک پوراعہد تھے، وہ اپنی نسل کے ان آخری لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے قیامِ پاکستان کے لیے مسلمانوں کی جدوجہد دیکھی، مسلم لیگ کا زمانہ دیکھا، پاکستان بن جانے کے بعد سے لے کر رواں دہائی تک سیاسی اتار چڑھاؤ دیکھے، آمریت اور جمہوریت کے ادوار کو پرکھا، پاکستان کو درپیش جنگوں کا درد محسوس کرکے ملی نغمے لکھے، اپنے سامنے تین نسلیں جوان ہوتے دیکھیں، پاکستان کو ترقی کرتے دیکھا، یہ کیا کم اعزاز ہے کہ ان کی آنکھوں نے اتنا کچھ دیکھا اور صرف دیکھا نہیں بلکہ اس کو قلم بند بھی کیا؟
جمیل الدین عالی کے فنی مرتبے پر تو بہت کچھ لکھا جائے گا لیکن کچھ پہلو تو بالکل سامنے کے ہیں جن پر بات ہوسکتی ہے۔ ان کے ہاں غزل کی روایت بے پناہ مضبوط تھی۔ انہوں نے غزل کی بنیاد کو مجروح کیے بنا لکھا اور اس میں نت نئے موضوعات کا احاطہ کیا۔ خارجی اور داخلی احساسات کی زبان نے ان کی شاعری کو دلگداز اور پُر اثر بنا دیا۔ ان کے ہاں انتظار، گھر، در و دیوار، روپ، رفاقت، محبت، اداسی اور امید سمیت متنوع رنگ بکھرے ہوئے ہیں، جن سے انہوں نے غزل کو مالا مال کیا۔ انہوں نے غزل کے لہجے میں کہیں اپنے آپ سے بات کی تو کسی موڑ پر زمانے کو بھی مخاطب کیا۔ ان کی غزل کے یہ چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
تیرے خیال کے دیوار و در بناتے ہیں
ہم اپنے گھر میں بھی تیرا ہی گھر بناتے ہیں
بجائے یوم ملامت رکھا ہے جشن مرا
مرے بھی دوست مجھے کس قدر بناتے ہیں
جمیل الدین عالی کے ہاں نظم کی بھرپور روایت بھی دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئے اور مشکل رجحان کی پیروی کی، وہ طویل نظم کی تخلیق تھی، انہوں نے ”انسان“ کے نام سے پندرہ ہزار اشعار کی طویل نظم لکھی، جس کو وہ اپنا لکھا ہوا منظوم ڈراما بھی کہتے تھے۔ یہ نظم ایک مکمل کتاب ہے، جس میں انہوں نے انسان کے تمام پہلوؤں کی عکاسی کی ہے۔
جب عالی صاحب نے معدوم ہوتی صنف سخن ”دوہے“ کو توجہ دی، تو گویا اس کی قسمت پھر سے جاگ اٹھی۔ انہوں نے اس صنف سخن پر خوب جی لگا کر کام کیا اور اس کی وجہ سے بھی ان کی شہرت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ انہوں نے دوہے کے موضوعات میں تہذیبی رچاؤ کو مدنظر رکھا۔ ان کا درجِ ذیل دوہا دیکھیے، اس میں وہ تخلیقی سرشاری اور حقیقت پسندی واضح ہے۔
پیارکرے اور سسکی بھرے، اور پھر سسکی بھر کر پیار
کیا جانے کب اک اک کر کے بھاگ گئے سب یار
یہی جاذبیت، سرشاری اور پیا رنگ ان کے گیتوں میں بھی ملتا ہے۔ انہوں نے گیتوں کی زبان سادہ اور مترنم رکھی۔ ان کی لفظیات نے اسی لیے ان کی معنویت کو مزید گہرائی دی کیونکہ وہ حرف کے برتاؤ سے معنی نکالنا جانتے تھے۔ ان کے ہاں گیت صرف داخلی اظہار کی علامت نہیں تھا بلکہ وہ ایسے موضوع اور احساس کو بھی شامل کر لیتے، جن سے ان کی ذات ہی نہ معاشرہ بھی شاملِ گفتگو ہوتا۔ وہ ہر طرح کے احساس کو بیان کرنے میں ملکہ رکھتے تھے۔ اس کی عکاسی یہاں ایک گیت کے اقتباس میں بھی موجود ہے۔
اب تک نہ مجھے کوئی میرا رازداں ملا
جو بھی ملا، اسیرِ زمان و مکاں ملا
کن حوصلوں کے کتنے دیے بجھ کے رہ گئے
اے سوزِ عاشقی! تو بہت ہی گراں ملا
جمیل الدین عالی کی تخلیقی بلندی اور شہرت کا حوالہ ان کے لکھے ہوئے ملی ترانے ہیں جن کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ 1965 میں ”اے وطن کے سجیلے جوانو“ اور 1971 میں ”جیوے جیوے پاکستان“ جیسا نغمہ لکھا۔ اسی طرح جب اظہارِ تشکر کی کیفیت طاری ہوئی تو ”میرا پیغام پاکستان“ جیسا نغمہ تخلیق کیا۔ 1974 میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کے لیے ”ہم مصطفوی ہیں“ جیسا کلام تخلیق کیا۔ انہوں نے جو گیت، ملی ترانے اور نغمے لکھے، ان کو کئی معروف گلوکاروں نے اپنی آوازوں میں امر کر دیا۔ ان کے چند ایک مقبول ہونے والے گیتوں اور گلوکاروں کے ناموں کی فہرست درج ذیل ہے۔
اے وطن کے سجیلے جوانو۔ نور جہاں
جیوے جیوے پاکستان۔ شہناز بیگم
میرا پیغام پاکستان۔ استاد نصرت فتح علی خان
اتنے بڑے جیون ساگر میں۔ علن فقیر
میں چھوٹا سا ایک لڑکا ہوں۔ متفرق گلوکار
جمیل الدین عالی تقریباً چار دہائیوں تک کالم نویسی بھی کرتے رہے۔ اس کے ذریعے انہوں نے نہ صرف حالاتِ حاضرہ کو قلم بند کیا، بلکہ ملک کے اہم واقعات پر بھی روشنی ڈالی۔ ادبی و ثقافتی سرگرمیوں اور نئی لکھی جانے والوں کتابوں کا تذکرہ بھی برابر کیا۔ اردو زبان کے فروغ اور اس کا اصل مقام دلانے کے لیے بھی تحریریں لکھیں، اس کے علاوہ پاکستانی معاشرت اور بین الاقوامی امور پر بھی ”نقارخانے“ کے نام سے اظہارِ خیال کرتے رہے۔
ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اس کا احاطہ کچھ یوں ہوتا ہے۔ جمیل الدین عالی کا مکمل نام ”نواب زادہ مرزا جمیل الدین احمد خاں“ تھا اور ”عالی“ تخلص تھا۔
20 جنوری 1926 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر دہلی میں ایک متمول اور ادبی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا نواب علاؤالدین احمد خان کی مرزا اسد اللہ خان غالب سے وابستگی تھی، جبکہ ان کے والد سر امیرالدین احمد بھی بہت اچھے اور معروف شاعر تھے۔ ان کے ننھیال کی مقبول ترین شخصیت اردو ادب کے معروف شاعر خواجہ میر درد تھے۔ اس طرح دیکھا جائے تو ان کا تعلق تہذیبی و ثقافتی طور پر ایک زرخیز ادبی پس منظر رکھنے والے خاندان سے تھا، پھر جس کی وراثت انہوں نے سنبھالی۔
بتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم اسی شہر میں حاصل کی۔ 1945 میں گریجویشن مکمل کی اور تقسیمِ ہند کے موقع پر اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ہجرت کر کے پاکستان آئے اور کراچی میں رہائش اختیار کی۔ 1951 کے بعد سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کی اور بطور انکم ٹیکس آفیسر تعینات ہوئے۔1963 میں وزارتِ تعلیم اور یونیسیکو میں بھی کام کیا۔ 1967 میں نیشنل بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے سینئر ایگزیکٹیو وائس پریزیڈنٹ کے عہدے تک پہنچے۔ پاکستان بینکنگ کونسل میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ایڈوائزر مقرر ہوئے۔
ان کی شادی طیبہ بانو سے ہوئی، جن سے ان کی دو بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ انہوں نے سیاست کے میدان میں بھی قدم رکھا۔ 1977 کے عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پر پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست سے انتخاب میں حصہ لیا اور جماعتِ اسلامی کے مولانا منور حسن سے ہار گئے۔ 1997 میں متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر منتخب ہوئے۔ اس کے علاوہ کئی ادبی و غیر ادبی اداروں کے سرپرست اور معاون رہے۔
زندگی کے آخری برسوں میں وہ گھر تک محدود ہو گئے تھے۔ ناسازیء طبع کے باوجود اکثر وہیل چیئر پر کئی تقریبات میں شرکت کے لیے چلے بھی جاتے تھے۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری، ادبی دنیا کے تمام اہم اعزازات سے انہیں نوازا گیا اور سرکاری سطح پر بھی ان کی پذیرائی ہوئی۔
عالی صاحب کے ہاں ایک اداسی تھی، جس میں کئی صدیوں کی ریاضت اور پیچھے رہ جانے والے پڑاؤ کی یاد تھی اور بچھڑ جانے والوں کی پرچھائیاں بھی۔ زندگی کے سات سُر سمجھ لینے کے بعد وہ اب جدائی کا آٹھواں سُر سمجھنے کو ہم سے جدا ہوئے ہیں۔
ان کی ایک غزل کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہی ان کی زندگی کا خلاصہ ہے۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
ایک عجیب راگ ہے ایک عجیب گفتگو
سات سروں کی آگ ہے آٹھویں سر کی جستجو
بجھتے ہوئے میرے خیال جن میں ہزارہا سوال
پھر سے بھڑک کے روح میں پھیل گئے ہیں چار سو
ہنستی ہوئی گئی ہے صبح پیار سے آرہی ہے شام
تیری شبیہ بن گئی وقت کی گرد ہوبہو
خون جنوں تو جل گیا شوق کدھر نکل گیا
سست ہیں دل کی دھڑکنیں تیز ہے نبضِ آرزو
جمیل الدین عالی، ایک والی ریاست کے وارث، تقسیم ہند کے شاہد، ارض وطن کے عاشق، میرے شاعر اور بہت سوں کے محبوب، ان کے جانے سے وہ مہک لوٹ آئی ہے جس میں ان کے گیتوں کی کھنک ہے، غزلوں کی رعنائیت، دوہوں کا رچاؤ اور نثر کی لطافت، جس سے ہم ان کو ہمیشہ یاد رکھیں گے، کیونکہ یہ وہ شخص تھا، حروف جس کے تابع تھے اور حروف سب کے تابع نہیں ہوتے، مگر جس کی بات مان لیں، اس کا پھر بہت مان رکھتے ہیں۔ جمیل الدین عالی اردو شعر و ادب کا مان ہیں
23 نومبر 2015 کو کراچی میں انتقال ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خرم سہیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالیؔ جس کا فن سخن میں اک انداز نرالا تھا
نقد سخن میں ذکر یہ آیا دوہے پڑھنے والا تھا
جانے کیوں لوگوں کی نظریں تجھ تک پہنچیں ہم نے تو
برسوں بعد غزل کی رو میں اک مضمون نکالا تھا
کیا وہ گھٹا ترے گھر سے اٹھی کیا وہ تو نے بھیجی تھی
بوندیں روش روشن تھیں اور بادل کالا کالا تھا
اجنبیوں سے دھوکے کھانا پھر بھی سمجھ میں آتا ہے
اس کے لیے کیا کہتے ہو وہ تو دیکھا بھالا تھا
ہم نہ ملے اور جب بھی ملے تو دونوں نے اقرار کیا
ہاں وہ وعدہ ایسا تھا جو پورا ہونے والا تھا
تپتی دھوپوں میں بھی آ کر اپنی یاد دلاتے ہیں
چاند نگر کے انشاء صاحب آلے جن کا ہالا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھٹکے ﮨﻮﺋﮯ ﻋﺎﻟﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻮ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺐ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ
ﮐﺐ ﯾﮧ ﺩﺭ ﻭ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺳﺠﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﺐ ﯾﮧ ﭼﻤﻦ ﻟﮩﺮﺍﺋﮯ ﮔﺎ
ﺳﻮﮐﮫ ﭼﻠﮯ ﻭﮦ ﻏﻨﭽﮯ ﺟﻦ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﭘﮭﻮﻝ ﺍﺑﮭﺮﻧﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭘﯿﺎﺱ ﺑﺠﮭﯽ ﺗﻮ ﮔﮭﺮ ﺟﻨﮕﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
ﮐﻢ ﮐﺮﻧﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺭﺍﮦ ﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﺗﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﺍﻧﺪﮬﯿﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﺭﮨﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻧﮧ ﺍﺟﺎﻻ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ
ﺳﻤﺠﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﺳﮯ ﭼﮭﭧ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﺍ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎ
ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ! ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮐﺮ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺷﺮﻣﺎﺋﮯ ﮔﺎ
ﺍﯾﺴﯽ ﮔﯿﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﻢ ﺟﺎﻧﮯ ﭘﮩﭽﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ
ﺗﻮ ﺁﺧﺮ ﺑﮭﻮﻻ ﮨﯽ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﯾﺎﺩ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ
ﮐﭽﮫ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺩﮐﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﮐﮫ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺰﯾﺰﻭﮞ ﮐﮯ
ﺍﻥ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺟﯿﻮﻥ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ ﺳﻮ ﺟﯿﻮﻥ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
ﭼﺎﺭ ﺑﺮﺱ ﺳﮯ ﺑﯿﮕﺎﻧﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﻮ ﮨﻢ ﮐﯿﺎ ﺑﯿﮕﺎﻧﮯ ﮨﯿﮟ
ﺭﻭﭨﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺟﯿﻮﻥ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺩﻭ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
ﮐﺲ ﮐﺲ ﺭﺍﮒ ﮐﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺳﺮ ﮨﯿﮟ ﮐﺲ ﮐﺲ ﺳﺮ ﮐﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺭﺍﮒ
ﺳﯿﮑﮭﮯ ﻧﮧ ﺳﯿﮑﮭﮯ ﮔﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮯ ﺳﯿﮑﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﮔﺎﺋﮯ ﮔﺎ
ﻋﺎﻟﯽؔ ﺟﯽ ﺍﺏ ﺁﭖ ﭼﻠﻮ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻮﺟﮫ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ
ﺳﺎﺗﮫ ﺑﮭﯽ ﺩﮮ ﺗﻮ ﺁﺧﺮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل آشفتہ پہ الزام کئی یاد آۓ
جب ترا ذکر چھڑا نام کئی یاد آۓ
تجھ سے چھٹ کر بھی گزرنی تھی سو گزری لیکن
لمحہ لمحہ سحر و شام کئی یاد آۓ
ہاۓ نوعمر ادیبوں کا یہ انداز بیاں
اپنے مکتوب ترے نام کئی یاد آۓ
آج تک مل نہ سکا اپنی تباہی کا سراغ
یوں ترے نامہ و پیغام کئی یاد آۓ
کچھ نہ تھا یاد بجز کار محبت اک عمر
وہ جو بگڑا ہے تو اب کام کئی یاد آۓ
خود جو لب تشنہ تھے جب تک تو کوئی یاد نہ تھا
پیاس بجھتے ہی تہی جام کئی یاد آۓ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم
وہ بچہ کہاں ہے
جو کہہ دے کہ حضرت سلامت
یہ سب لوگ ملبوس شاہی کا اقرار کرتے رہیں
مجھ کو تو آپ ننگے نظر آ رہے ہیں
وہ بچہ جو اتنی پرانی کہانی میں زندہ چلا آ رہا ہے
ہمارے وطن میں بھی ہو گا
ہمارے وطن میں بھی ہو گا
ڈری اور سہمی مگر پھر بھی جاری یہ آواز دل چیرتی ہے
ہمارے وطن میں بھی ہو گا
ہمارے وطن میں بھی ہو گا
میں درباریوں میں تو کیا نوکروں کے جلو میں بہت دور بیٹھا
لباس شاہی کا مدح خواں تو اب بھی نہیں
اشاروں کنایوں
علامات سے یا خرافات سے
کچھ نہ کچھ نظم میں کچھ نہ کچھ نثر میں بڑبڑاتا رہا ہوں
مگر واں بھی یاں کا یہ افسانہ سب کو سناتا رہا ہوں
وہ غالبؔ نہ ہو اور جالبؔ رہے پھر بھی ایسا ہی بچہ
ہامرے وطن میں بھی ہے
اور رہے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو والے ہندی والے دونوں ہنسی اڑائیں
ہم دل والے اپنی بھاشا کس کس کو سکھلائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیار کرے اور سسکی بھرے پھر سسکی بھر کر پیار
کیا جانے کب اک اک کر کے بھاگ گۓ سب یار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دریا دریا گھومے مانجھی پیٹ کی آگ بھجانے
پیٹ کی آگ میں جلنے والا کس کس کو پہچانے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساجن ہم سے ملے بھی لیکن ایسے ملے کہ ہاۓ
جیسے سوکھے کھیت سے بادل بن برسے اڑ جاۓ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روٹی جس کی بھینی خوشبو ہے ہزاروں راگ
نہیں ملے تو تن جل جاۓ ملے تو جیون آگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود