ایک ہیڈ ماسٹر کے بارے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہوا جب وہ کسی سکول میں استاد تعینات تھے تو انہوں نے اپنی کلاس کا ٹیسٹ لیا۔ ٹیسٹ کے خاتمے پر انہوں نے سب کی کاپیاں چیک کیں اور ہر بچے کو اپنی اپنی کاپی اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ایک قطار میں کھڑا ہو جانے کو کہا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ :
" جس کی جتنی غلطیاں ہوں گی، اس کے ہاتھ پر اتنی ہی چھڑیاں ماری جائیں گی ... "
اگرچہ وہ نرم دل ہونے کے باعث بہت ہی آہستگی سے بچوں کو چھڑی کی سزا دیتے تھے تاکہ ایذا کی بجائے صرف نصیحت ہو، مگر سزا کا خوف اپنی جگہ تھا۔ تمام بچے کھڑے ہو گئے۔ ہیڈ ماسٹر سب بچوں سے ان کی غلطیوں کی تعداد پوچھتے جاتے اور اس کے مطابق ان کے ہاتھوں پر چھڑیاں رسید کرتے جاتے ...
ایک بچہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچے اور اس سے غلطیوں کی بابت دریافت کیا تو خوف کے مارے اس کے ہاتھ سے کاپی گرگئی اور گھگیاتے ہوئے بولا :
” جی میری تو ساری ہی غلطیاں ہیں ... "
میرے نہایت محترم و قابل قدر قارئین کرام! معرفت کی گود میں پلے ہوئے ہیڈ ماسٹر اس کے اس جملے کی تاب نہ لاسکے اور ان کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ ہاتھ سے چھڑی پھینک کر زاروقطار رونے لگے اور بار بار یہ جملہ دہراتے :
"یااللہ! مجھے معاف کر دینا۔ میری تو ساری ہی غلطیاں ہیں ... "
روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی، اور اس بچے کو ایک ہی بات کہتے :
" تم نے یہ کیا کہہ دیا ہے، یہ کیا کہہ دیا ہے میرے بچے! "
" یااللہ! مجھے معاف کر دینا۔ میری تو ساری ہی غلطیاں ہیں ... "
میرے نہایت ہی مکرم و محترم دوستو اس واقعہ سے کیا سبق لینا، اس سے تو اس حقیر فقیر کو اپنے گریبان کا احوال نظر آنے لگا ہے کہ!!!
اللہ تعالٰی مجھ گناہ گار و ناعاقبت اندیش فرحان سمیت ہم تمام مسلمانان عالم کو ان جملوں کی حقیقت کو سمجھنے کی سعادت نصیب فرماتے ہوئے تاحیات عین صراط مستقیم پر چلنے کی کامل توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمیــــــــــــــن یارب العالمین ...
#طالب_دعا : #فرحان_بن_عبد_الرحمٰن ...