01 فروری 1981
ﺩﻧﯿﺎﺋﮯ ﮐﺮﮐﭧ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﻭﮦ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍٓﺳﭩﺮﯾﻠﯿﺎﺍﻭﺭ ﻧﯿﻮﺯﯼ ﻟﯿﻨﮉ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﺷﻤﻨﯽ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ ﺍﻭﺭﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﮭﯿﻞ ﮐﮯ ﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍ ﮔﺌﮯ.....
01 ﻓﺮﻭﺭﯼ 1981 ﺀﮐﻮ ﻣﯿﻠﺒﻮﺭﻥ ﮐﺮﮐﭧ ﮔﺮﺍﺅﻧﮉ ﻣﯿﮟ ﺁﺳﭩﺮﯾﻠﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﻮﺯﯼ ﻟﯿﻨﮉ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮐﮭﯿﻠﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﯿﭻ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﭘﯿﺶ ﺁﯾﺎ ﺟﻮ ﮐﺮﮐﭧ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﭘﺮ ﮔﮩﺮﮮ ﻧﻘﺶ ﭼﮭﻮﮌ ﮔﯿﺎ۔ ﮐﺌﯽ ﻣﺒﺼﺮﯾﻦ ﺍﺳﮯ ﮐﺮﮐﭧ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺷﺮﻣﻨﺎﮎ ﺗﺮﯾﻦ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﻭﺭﻟﮉ ﺳﯿﺮﯾﺰ ﮐﮯ ﻓﺎﺋﻨﻠﺰ ﮐﺎ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﺳﯿﺮﯾﺰ 1-1 ﺳﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺗﮭﯽ۔
ﻧﯿﻮﺯﯼ ﻟﯿﻨﮉ ﮐﻮ ﺁﺧﺮﯼ ﺑﺎﻝ ﭘﺮ ﻣﯿﭻ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ 6 ﺭﻧﺰ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﭩﺮﺍﺋﮏ ﭘﺮ ﺩﺳﻮﯾﮟ ﻧﻤﺒﺮ ﮐﮯ ﺑﻠﮯ ﺑﺎﺯ ’ﺑﺮﺍﺋﻦ ﻣﯿﮑﭽﻨﯽ‘ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﺎﺅﻟﺮ ﭨﺮﯾﻮﺭ ﭼﭙﻞ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ
ﮐﮧ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺁﺳﭩﺮﯾﻠﻮﯼ ﭨﯿﻢ ﮐﮯ ﮐﭙﺘﺎﻥ ﮔﺮﯾﮓ ﭼﭙﻞ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺑﮭﯽ تھے۔ چیپل کافی دیر تک بھائی کے ساتھ کھڑے پلان بناتے رہے کہ کیسے آخری بال پر نیوزی لینڈ کو چھ رنز نہ بنانے دیئے جائیں۔ چیپل کو ڈر تھا کہ آخری بال پر نیوزی لینڈ کا بیٹسمین ان کے بھائی کو چھکا نہ مار دے اور نیوزی لینڈ میچ جیت نہ جائے۔
اس کا حل دونوں بھائیوں نے یہ نکالا کہ بال کندھوں کے اوپر سے لا کر نارمل انداز میں پھینکنے کی بجائے بیٹسمین کو انڈر آرم بال پھینکی جائے گی۔ انڈر آرم بال وہ ہوتی ہے جو آپ کندھوں سے بازو اوپر لا کر کرنے کی بجائے محض زمین پر بیٹسمین کی طرف لڑھکا دیتے ہیں جس سے بیٹسمین ہٹ نہیں لگا سکتا۔ ان دنوں کرکٹ ورلڈ میں انڈر آرم بال پھینکنا غیر قانونی نہ تھا۔ اپنے تئیں دونوں بھائی کوئی غیر قانونی کام نہیں کر رہے تھے۔ چیپل برادرز خوش تھے کہ وہ میچ جیت رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ٹی وی پر لائیو چل رہا تھا۔ پورا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ یہ اہم میچ دیکھ رہے تھے‘ جو انتہائی سنسنی خیز موڑ پر پہنچ چکا تھا۔ آخری بال اور جیتنے کے لیے چھ رنز۔ تماشائیوں کی دلچسپی اپنے عروج پر تھی‘ سب کی سانسیں رکی ہوئی تھیں کہ میچ کی آخری بال پر کیا ہوگا؟ نیوزی لینڈ چھکا لگا کر میچ جیت جائے گا یا پھر بائولر ڈاج کرا دے گا اور آسٹریلیا میچ جیتے گا؛
تاہم دنیا بھر کے تماشائیوں کو اس وقت جھٹکا لگا جب میچ کاسارا کلائمیکس اور سنسنی خیزی آسمان سے زمین پر آگری اور ٹریوور چیپل نے امپائر کے پیچھے سے چند قدم اٹھا کر بڑے آرام سے بال زمین کے ساتھ لڑھکا کر وکٹ کی طرف پھینک دی۔ انڈر آرم بال پھینکی گئی تو بیٹسمین نے اسے روکا اور شدید فرسٹریشن میں اپنا بلا دور پھینک دیا کہ یہ دھوکا ہے۔ آسٹریلوی ٹیم خوش تھی کہ میچ جیت گئے ہیں؛ تاہم اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ٹریوور چیپل آج تک بھگت رہے ہیں
میچ تو آسٹریلیا جیت گیا لیکن اخلاقی طور پر اسے شکست ہوئی کہ میچ ہارتا دیکھ کر ایسے گھٹیا ہتھکنڈے پر اتر آیا۔ آسٹریلوی لوگوں کو بھی یہ محسوس ہوا کہ ان کی ٹیم نے ایسا کام کیا تھا جس سے انہیں خوشی کی بجائے شرمندگی ہوئی۔ ہار جیت ہوتی رہتی ہے‘ کیا جیتنا اتنا ہی ضروری ہوتا ہے کہ بندہ گیم میں بھی بے ایمانی کرے؟ سب سے بڑا جو ردعمل ٹریوور چیپل کو ملا‘ اس کی وہ توقع نہیں کر رہا تھا۔ جب وہ گھر پہنچا تو اس کی بیوی نے سخت ردعمل دیا کہ یہ تم نے کیا حرکت کی؟ اس کی بیوی اس پر غصہ ہوئی کہ تمہاری وجہ سے ہم سب کو شرمندگی ہو رہی ہے کہ تم نے محض میچ جیتے کے لیے ایسی گھٹیا حرکت کی اور پورے کھیل کو بدنام کیا، سب سے بڑھ کر تم نے پورے خاندان کو بدنام کیا۔ دونوں میاں بیوی کے درمیان اس ایک انڈر آرم بال کی وجہ سے اختلافات بڑھتے گئے اور آخرکار علیحدگی ہو گئی۔ اس کی بیوی نے کہا کہ میں ایسے انسان کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں ہوں جو کھیل میں اس طرح کا دھوکا دیتا ہو۔
آج بھی ٹریوور چیپل کو اپنے پرانے زخم اور دکھ یاد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں آج تک وہ نارمل زندگی نہیں گزار سکا۔ ایک ایک لمحہ اس کا اس سکینڈل کے ساتھ گزرا ہے اور اسے یہ محسوس ہوا کہ پوری دنیا اس سے نفرت کرتی ہے۔ اسے لگا جہاں بھی کہیں کرکٹ میں چیٹنگ اور دھوکے کی بات ہوتی ہے‘ اس کا ذکر ضرور ہوتا ہے کہ کیسے اس نے اپنے بڑے بھائی گریگ چیپل کے کہنے پر ایک ایسا کام کیا۔ سزا وہ آج تک بھگت رہا ہے۔