Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link
اشاعتیں

مشہور ادیب، مصنف، کالم نگار، نقاد، تاریخ دان اور بیباک صحافی خشونت سنگھ



مشہور ادیب، مصنف، کالم نگار، نقاد، تاریخ دان اور بیباک صحافی خشونت سنگھ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خشونت سنگھ (پیدائش: 2 فروری 1915ء وفات : 20 مارچ 2014ء) بھارت کے مشہور مصنف ، تاریخ دان اور نقاد تھے۔ ان کا پیدائشی نام خوشحال سنگھ تھا۔ وہ ایک قانون داں، صحافی اور سیاست دان تھے۔ انہوں نے 1947ء میں تقسیم ہند کا بہت قریب سے معائنہ کیا تھا اور اس واقعہ نے انہیں اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے اپنی مشہور زمانہ اور مایہ ناز کتاب ٹرین ٹو پاکستان لکھ ڈالی جسے غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ 1998ء میں اس ناول پر ایک فلم بھی بنی۔ 


پنجاب میں جنمے خوشونت سنگھ کی تعلیم نئی دہلی میں ہوئی اور انہوں نے قانون کی پڑھائی سینٹ اسٹیفنز کالج دہلی میں مکمل کی۔ اس کے بعد وہ کنگز کالج لندن چلے گئے اور مزید تعلیم حاصل کی۔ لاہور عدالت میں انہوں نے کچھ دنوں وکالت کی اور بعد ازاں وہ انڈین فورین سروسز کے متعلق ہو گئے۔ 


1951ء میں انہیں آکاش وانی (ریڈیو ناشر) میں بطور صحافی نامزاد کیا گیا۔ اس کے بعد یونیسکو میں شعبہ برائے ماس کمیونیکیشن میں چلے گئے۔ ان دونوں جگہ کام کرنے کی وجہ سے ان کے دل میں ادب میں طبع آزمائی کا خیال آیا۔


بطور لکھاری وہ اپنی غیر جانبداری، مزاحیہ انداز سیکیولرزم اور شاعری طرز ادا کے لیے مشہور تھے۔ وہ ہندوستان اور یورپی سماج کا معائنہ جس انداز میں کیا کرتے تھے وہ قارئین کو خوب بھاتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ ایک کامیاب مزاحیہ نگار کے طور پر مشہور ہوئے مگر ان کا قلم تنقیدی تھا۔ یہ بات الگ ہے کہ ان کی تنقید میں اصلاح کا پہلو نمایاں ہوتا تھا لیکن یہ سب کچھ مزاح کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہوتا تھا۔ 


انہوں نے  1970ء اور 1980ء کے دوران میں کئی مجلوں، رسالوں اور اخباروں میں ادارتی خدمات دیں۔ وہ 1980ء تا 1986ء بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے رکن رہے۔


1974ء میں انہیں پدم بھوشن دیا گیا۔ لیکن آپریشن بلیو اسٹار کے بعد انہوں نے پدم بھوشن لوٹا دیا۔ یہ آپریشن بھارتی فوج نے امرتسر میں کیا تھا۔ 


تعلیم 


پاکستانی پنجاب کے ضلع خوشاب کے قریب گاؤں ہڈالی میں پیدا ہوئے جہاں انہوں نے اِسکول تک کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد وہ گورنمنٹ کالج لاہور چلے گئے۔


برطانیہ میں کیمبرج یونیورسٹی اور انر ٹیمپل میں پڑھنے کے بعد انہوں نے واپس لاہور جا کر وکالت شروع کر دی تاہم تقسیم ہند کے بعد وہ اپنے خاندان سمیت دلی میں بس گئے۔ وہ کچھ عرصہ وزارت خارجہ میں سفارتی عہدوں پر بھی تعینات رہے لیکن جلد ہی سرکاری نوکری کو خیرآباد کہہ دیا۔


صحافتی زندگی 


1951ء میں صحافی کی حیثیت سے آکاش وانی (ریڈیو ناشر) میں نوکری اختیار کر لی جہاں سے ان کے تابناک کیریر کا آغاز ہوا۔ وہ بھارت کے مشہور جریدے السٹریٹڈ ویکلی کے ایڈیٹر رہے اور ان کے دور میں یہ جریدہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ خوشونت سنگھ ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر بھی رہے۔


خوشونت سنگھ نے تقریبًا تمام مشہور ملکی اور غیر ملکی اخبارات کے لیے کالم لکھے۔ ان کی کتاب ’ہسٹری آف سکھ‘ یعنی سکھوں کی تاریخ اب تک اس سلسے میں ہونے والا سب سے منجمد کام سمجھا جاتا ہے۔


ادبی خدمات 


انہوں نے کئی ناول بھی لکھے اور ان کی کتابوں کی کل تعداد 80 ہے۔ ان کے ناول "ٹرین ٹو پاکستان" کو 1954ء میں عالمی شہرت یافتہ گروو پریس ایوارڈ دیا گیا۔ ان کے دو کالم بھارت کے چالیس انگریزی اخباروں میں چھپتے رہے۔ اُن کی کتاب "ٹروتھ لو اند ا لٹل مالیس" جس کا ترجمہ نگارشات کر سچ محبت اور ذرا سا کینہ کے نام سے کیا حال پڑنے سے تلک رکھتی ہے آپ کی مشہور کتابوں میں ڈیتھ اٹ مائی دورسٹیپ بے حد شہرت کی حامل ہے۔ دلی ایک ناول کافی مشہور کتاب ہوئی اور اردو ترجمہ بھی ہوا۔


اعزازات 


خوشونت سنگھ کو 1974ء میں پدم بھوشن ایورارڈ دیا گیا جسے انہوں نے 1984ء میں گولڈن ٹیمپل آپریشن کے بعد واپس کر دیا۔خوشونت سنگھ کو پنجاب رتن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اور 1980ء سے لے کر 1986ء تک وہ راجیہ سبھا کے ارکان بھی رہے۔


وفات 


خوشونت سنگھ نے 20 مارچ 2014ء کو اپنی دہلی کی رہائش گاہ پر بعمر 99 وفات پائی۔ اُن کی وفات پر صدر بھارت، نائب صدر بھارت اور وزیر اعظم بھارت نے اظہار افسوس کیا۔ انہیں لودھی شمشان گھاٹ دہلی میں نذر آتش کیا گیا۔ اپنی زندگی میں وہ تدفین کے خواہاں تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا تدفین کے ذریعے ہم زمین کو وہ لوٹا رہے ہوتے ہیں جو ہم نے زمین سے لیا ہے۔ انہوں نے بہائیت سے درخواست کی کہ انہیں ان کے قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت دی جائے۔ بہائیوں نے کچھ شرطوں کے ساتھ منظور کا اظہار کیا مگر سنگھ کو وہ شرائط منظور نہ تھیں لہذا ان کا یہ خواب شرمندہ تعمیل نہ ہو سکا۔ ان کی خواہش کے مطابق ان کی خاک کو ہڈالی، ضلع خوشاب، پنجاب، پاکستان میں پہنچایا گیا۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خشونت سنگھ کی تحریر کردہ کچھ الگ الگ سطور دیکھئے:


‏پنجابی انہی سے محبت کرتے ہیں جن پر وہ رحم کر سکتے ہوں


‏میں تب تک لکھتا رہوں گا جب تک قلم کے لیے کنڈوم ایجاد نہیں ہوتا۔


‏اگر آپ اردو سیکھنا چاہتے ہیں تو عشق کرلیجئے اور اگر عشق کرنا چاہتے تو اردو سیکھ لیجئے۔


‏چاپلوسی سے بڑی کرپشن نہیں ہو سکتی۔


‏زندگی میں کبھی ریٹائر نہ ہوئیے گا۔ کچھ نہ کرنے والے، کچھ بھی نہیں رہتے، اور اپنے انجام کی جانب جلد روانہ ہو پڑتے ہیں


میں بھٹو سے کہتا تھا کہ ‏تم داؤد (افغان صدر) کی ایسی تیسی کرنے کے لیے افغانی مولویوں کی مہمانی مت کرو تمہارے گلے پڑ جائیں گے۔ اب دیکھو کیا ہو رہا ہے


‏بس میں امید کرتا ہوں کہ جب موت آئے، تو تیزی سےآئے، زیادہ تکلیف نہ ہو، جیسے بس آپ سوتے ہوئے اس دنیا سےچلے جائیں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


انتخاب و پیشکش 

نیرہ نور خالد

ایک تبصرہ شائع کریں