مولانا محمد شفیع اوکاڑوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خطیب پاکستان مولانا محمد شفیع اوکاڑوی مسلم علماء کی کہکشاں میں شامل ایک روشن ستارے ہیں جن کے دنیا سے جانے کے بعد بھی ان کا نام ان کی علمی خدمات کی بدولت ذندہ رہتا ہے۔
پاکستان کے نامور عالم دین، خطیب اور متعدد کتابوں کے مصنف مولانا محمد شفیع اوکاڑوی 2 فروری 1929ء کو کھیم کرن میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ اوکاڑہ میں آباد ہوئے۔
مولانا محمد شفیع اوکاڑوی 1947 میں ہجرت کرکے اوکاڑہ آئے مولانا نے قیام پاکستان سے قبل مڈل تک تعلیم حاصل کی تھی اس دور میں مڈل تک تعلیم حاصل کرنا بہت بڑی بات سمجھا جاتا تھا آپ نے قرآن پاک حفظ کیا اور دینی تعلیم اس دور کے اکابر علماء کرام سے حاصل کی جن میں دارالعلوم اشرف المدارس اوکاڑہ کے شیخ الحدیث و التفسیر شیخ القرآن مولانا غلام علی اشرفی اوکاڑویؒ اور مدرسہ عربیہ اسلامیہ انوارالعلوم ملتان کے شیخ الحدیث والتفسیر غزالی زماں رازی دَوراں مولانا سید احمد سعید صاحب کاظمی ؒ شامل تھے ان جیسے جید اساتذہ سے تمام متدادل دِینی علوم پڑھے اور درسِ نظامی و دورۂ حدیث کی تکمیل پر اسناد حاصل کیں علوم دینیہ کی تلعیم حاصل کرنے کے بعد ساہیوال کی جامع مسجد مہاجرین میں نماز جمعہ کی خطابت شروع کی ۔
مولانا محمد شفیع اوکاڑوی برلا ہائی سکول اوکاڑہ میں اسلامیات کے استاد کی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے شیخ المشائخ پیر میاں غلام اللہ شرقپوری المعروف ثانی صاحبؒ کے دست حق پرست پر بعیت کی ۔
1952ء میں جب مفتی اعظم پاکستان علامہ ابولالحسنات قادریؒ کی سربراہی میں تمام مسالک نے متحدہ تحریک ختم نبوت چلائی تو مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ نے بھی اس میں بھرپور حصّہ لیا ۔
اس تحریک ختم نبوت میں بھرپور شرکت کی بناء پر آپ کو بھی گرفتار کر لیا گیا آپ 10 ماہ منٹگمری جیل میں رہے ۔ اسی دوران مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ کے دو فرزند 3 سالہ تنویر احمد اور 2 سالہ منیر احمد انتقال کرگئے جس پر کچھ با اثر لوگوں نے ڈپٹی کمشنر ساہیوال سے مل کر سفارش کی ۔ ڈپٹی کمشنر نے جیل کے دورے کے دوران آپؒ سے ملاقات کی اور کہا ’’ بچوں کی وفات کی وجہ سے آپ کے گھر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں آپ کے لئے بہت سی سفارشیں ہیں ۔آپؒ معافی نامے پر دستخط کردیں آپ کا معافی نامہ عوام سے پوشیدہ رکھا جائے گا اور آج ہی آپ کو رہا کردیا جائے گا مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ نے جواب دیا کہ مَیں نے عزت و ناموسِ مصطفی ﷺ کے لئے کام کیا ہے اور میرا عقیدہ ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ آخری نبی ہیں ، لہذا معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بچے اللہ کو پیارے ہوگئے ، میری جان بھی چلی جائے تب بھی اپنے عقیدے پر قائم رہوں گا اور معافی نہیں مانگوں اس سخت جواب کی پاداش میں مزید سختی کی گئی ، دفعہ 3 میں نظر بند کردیا گیا اور ملاقات پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
مولانا عبدالحق کیمبل پوری، مولانا غلام علی اوکاڑوی اور علامہ سید احمد سعید کاظمی کے شاگرد رہے اور پھر خطابت میں کمال حاصل کیا۔ وہ کچھ عرصہ ساہیوال میں بھی مقیم رہے۔
1955ء میں مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ کراچی آئے ۔ کراچی کی سب سے بڑی مرکزی میمن مسجد (بولٹن مارکیٹ ) کےخطیب و امام مقرر ہوئے ، میمن مسجد کی امامت و خطابت کے بعد تقریباً تین برس جامع مسجد عیدگاہ میدان اور سَوا دو سال جامع مسجد آرام باغ اور بارہ برس نور مسجد نزد جوبلی مارکٹ میں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے اور نماز جمعہ پڑھاتے رہے ہر مقام پر زبردست اجتماع ہوتا ۔ ان تمام مساجد میں تفسیرِ قرآن کا درس دیتے رہے اور تقریباً 29 برس میں نو پاروں کی تفسیر بیان کی 1964ء میں پی ای سی ایچ سوسائٹی میں مسجد غوثیہ ٹرسٹ سے ملحق ایک دِینی درس گاہ قائم کی جس کا نام دارالعلوم حنفیہ غوثیہ ہے ، گل زار حبیب ﷺ ٹرسٹ بھی قائم کیا۔
16اکتوبر1962ء کو کراچی کے علاقہ کھڈا مارکیٹ میں ایک سازش کے تحت کچھ لوگوں نے محض تعصب کا شکار ہوکر دَورانِ تقریر مولانامحمد شفیع اوکاڑویؒ پر چُھریوں اور چاقوؤں سے شدید قاتلانہ حملہ کِیا جس سے آپ کی گردن ، کندھے ، سَر اور پُشت پر پانچ نہایت گہرے زخم آئےلیکن آپؒ نے عفو درگزر کا عظیم مظاہرہ کیا اور حملہ آوروں کے خلاف مقدمے کی پیروی تک نہ کی۔
ستمبر1965 کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر آپؒ نے قومی دفاعی فنڈ میں ہزاروں روپے دیئے اور اپنی تقاریر کے اجتماعات میں لاکھوں روپے کا سامان جو لباس اور اشیائے خورد و نوش پر مشتمل تھا ، جمع کیا اور ہزاروں روپے نقدی سمیت علمائے کرام کے ایک وفد کے ساتھ آزاد کشمیر گئےآزاد کشمیر کے 22 مقامات کے علاوہ سیالکوٹ ، چھمب جوڑیاں لاہور ، واہگہ اور کھیم کرن کے متعدد محاذوں پر جاکر فوجیوں میں جہاد کی اہمیت اور مجاہد کی عظمت و شان اور فی سبیل اللّٰہ جہاد کے موضوع پر وَلوَلہ انگیز تقاریر کیں۔
1970ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ آپؒ جمعیت علماء پاکستان کے ٹکٹ پر کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے قیام پاکستان سے تادم آخرمحمد شفیع اوکاڑوی ، ایک مخلص اور محبِ وطن پاکستانی اور سچے پکّے مسلمان ہونے کا بھرپور مظاہرہ کرتے رہے ہیں ۔ ان کی شخصیت ملک بھر میں بالخصوص اور دنیا بھر میں بالعموم محبوب و محترم اور مقبول و ممتاز رہی جنرل ر محمد ضیاء الحق کی قائم کردہ مجلسِ شوریٰ کے رکن رہے اور قوانینِ اسلامی کے ترتیب و تشکیل اور نفاذ کے لئے خدمات سر انجام دیں اپنی وفات سے چند ماہ قبل مرکزی محکمہ اوقاف پاکستان کے نگرانِ اعلی اور یونیورسٹی گرانٹس کمِشن کے رُکن رہے آپؒ نےاتحاد بین المسلمین کے لئے ملک بھر میں نمایاں خدمات انجام دیں قومی دفاعی فنڈ ، افغان مجاہدین ، سیلاب زدگان اور ہر ناگہانی سانحے سے متاثر ہونے والے افراد کی امداد میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے رہے ۔
آپ نے گلزار حبیب ٹرسٹ کے قیام میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں، جس کے تحت ایک جامع مسجد اور دینی مدرسہ قائم کیا گیا۔
مولانا محمد شفیع اوکاڑوی کی اہم تصانیف میں ذکر جمیل، نغمہ حبیب، سفنیہ نوح، راہ حق، تعارف علمائے دیوبند، انوار رسالت، درس توحید، شام کربلا اور راہ عقیدت شامل ہیں۔
مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ کی علمی استعداد ،حُسنِ بیان ، خوش الحانی اور شانِ خطابت نہایت منفرد اور ہر دل عزیز تھی ۔ ہر تقریر میں ہزاروں ، لاکھوں افراد کے اجتماعات ہوتے تھے ۔ ماہِ محرم کی شبِ عاشورہ میں ملک کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع ، مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ کے خطاب کی مجلس کا ہوتا تھا ۔ تقریبا پورے ملک میں آپؒ نے تقاریر کیں دِین و مسلک کی تبلیغ کے لئے شرقِ اوسط ، خلیج کی ریاستوں ، بھارت ، فلسطین ، جنوبی افریکا ، ماریشس اور دوسرے کئی ممالک کے دورے بھی کیے آپ نے 24کتابیں لکھیں فتووں کے رسالہ اس کے علاوہ ہیں 3 ہزار سے زائد ا فراد کو مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ نے مسلمان کیا اور لاکھوں افراد کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہوئی۔ انہیں طریقت کے چاروں سلاسل میں کئٰ مشائخ سے اجازت و خلافت حاصل تھی دنیا بھر میں آپ کے مریدین پھیلے ہوئے ہیں جن کی تعداد ہزاروں میں ہے مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ نے جنوبی افریقہ میں انجمن اہلِ سنّت و جماعت قائم کی ۔
پاکستان میں سُنی تبلیغی مشن ، انجمن محبانِ صحابہ و اہلِ بیت ، تنظیم ائمہ و خطبا مساجد اہلِ سنّت سمیت کئی ادارے قائم کئے ۔
40سالہ تبلیغٰی ذندگی میں سینکڑوں موضوعات پر18 ہزار سے زائد خطابات کیے1973ء میں آخری بیرونِ ملک سفر ، بھارت کے لئے کیا ۔ اپنے دَورے میں بمبئی ، اجمیر، دہلی اور بریلی شریف گئےآپؒ 1974ء میں عارضہ قلب میں مبتلا ہوئے 1975ء میں دوران سفر دوسری مرتبہ دل کا دَورہ پڑا ، اسی حالت میں کراچی آئے اور تقریباً 6 ہفتے اسپتال میں زیرِ علاج رہے ۔
مارچ 1984ء میں شرقپور شریف گئے اور اپنے پیرو مرشد کی درگاہ پر حاضری دی جو وہاں ان کی آخری حاضری ثابت ہوئی ۔
مولانا محمد شفیع اوکاڑویؒ نے20اپریل 1984ء کو آخری خطاب جامع مسجد گُلزارِ حبیب ﷺ میں نمازِ جمعہ کے اجتماع سے کیا اسی شب تیسری بار دل کا شدید دَورہ پڑا اور آپؒ 3دن بعد منگل، 21 رجب المرجب 1404 ھ بمطابق 24 اپریل 1984ء کی صبح 55 برس کی عمر میں اذانِ فجر کے بعد دُرود و سلام پڑھتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جاملے ۔
24 اپریل 1984ء کو مولانا محمد شفیع اوکاڑوی کراچی میں وفات پاگئے۔ 25اپریل 1984ء کو نشتر پارک کراچی میں غزالی ء زماں رازی ء دوراں علامہ سید احمد سعید کاظمی نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ اور سولجر بازار کراچی میں جامع مسجد، گلزار حبیب میں آسودۂ خاک ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد