Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link

امام جعفر الصادق کی ارسطو پر تنقید! | imam jaffer sadiq ki aristotle per tanqeed

نوٹ: یہ تحریر چند کتب/مضامین کا ترجمہ، مفہوم و خلاصہ ہے جیسا کہ مغز متفکر جہان شیعہ، دی گریٹ امام جعفر الصادق، تھیسیز جو ریسرچ کمیٹی سٹراسبرگ، فرانس نے شائع کئے۔ یہ ایک آزمائشی اشاعت ہے۔ صاحب علم و فکر سے امید ہے اس کاوش پر حاشیہ آرائی کر کے تحریر کو زیادہ جامع ، مستند بنانے میں تعاون فرمائیں گے تا کہ جوانان کے لئے یہ تحریر حوصلہ افزاء ہو۔

باب ۸

امام جعفر الصادق کی ارسطو پر تنقید! | imam jaffer sadiq ki aristotle per tanqeed

امام جعفر الصادق کی
ارسطو پر تنقید!

 ایک مضمون جو محمد باقرالعلوم اپنے ادارہ میں پڑھاتے تھے وہ فزکس کا تھا اور اس بات کی کڑیاں ملتی ہیں کہ یہ علم انہوں نے مصری معلمین سے حاصل کیا تھا اور باقی علوم کے متعلق نہیں معلوم کے انہوں نے کہاں سے حاصل کیے جیسا کہ ادویات کا علم، ریاضی ، جیوگرافی وغیرہ۔

امام محمد باقرالعلوم ارسطوی فزکس پڑھاتے تھے جس میں بے شمار مضامین شامل تھے جیسا کہ ذوالوجی ، باٹنی، جیالوجی وغیرہ شامل تھے اس  وقت ان تمام شاخوں کو صرف فزکس ہی سمجھا جاتا تھا لیکن آج کے دور میں ہر ایک الگ شاخ ہے اگر فزکس مادیات سے متعلق علم کا نام ہے تو ارسطو بجا تھا کیونکہ وہ ان تمام علوم کو فزکس میں شمار کرتا تھا۔

جعفر الصادق نے فزکس محمد باقرالعلوم سے سیکھی لیکن محض 11 سال کی عمر میں سورج کی زمین کے گرد گردش کو غلط ثابت کی اور 12 سال کی عمر میں ارسطو کے نظریہ برائے چار عناصر (ہوا، آگ، مٹی اور پانی) کو غلط ثابت کیا آپ نے فرمایا میں حیران ہوتا ہوں کہ ارسطو جیسا شخص صرف چار عناصر کو کیسے شمار کر سکتا حالانکہ اگر صرف زمین (مٹی) کو دیکھا جائے تو اس میں کئی دھاتی عناصر موجود ہیں۔

امام جعفر سے ارسطو کے درمیان تقریباً ایک ہزار سال کا وقفہ ہے اس دوران نظریہ چار عناصر کلیدی حیثیت رکھتا تھا کسی سائنسدان نے اس پر شک و شبہات نہیں اٹھائے تھے محض12 سال کے بچے سے کئی سوال کھڑے کئے اور اسے غلط ثابت کر دیا ۔

جب امام جعفر الصادق بڑے ہوئے اور اپنے ادارہ میں پڑھانا شروع کیا تو پانی ، ہوا اور آگ کو بھی عنصرنہ ہونا ثابت کیا سائنسدانوں نے پانی میں ملے عناصر کو ایجاد کیا حا لانکہ 1100 سال پہلے امام جعفر نے کہہ دیا تھا کہ پانی عنصر نہیں بلکہ مختلف عناصر کا مجموعہ ہے ۔ 

صحیح نظائر اور دلائل سے یہ بھی مانا جا سکتا ہے کہ زمین عنصر نہیں ہے لیکن ہوا کو ایک عنصر نہ ماننا ذہن تسلیم نہیں کرتا ارسطو کے بعد تمام سائنسدان بشمول (18 صدی کے سائنسدانوں کے جو کہ سائنس کا سنہری دور مانا جاتا ہے ہوا کو ایک عنصر ہی مانتے رہے یہاں تک کہ لاوزیر نے آکسیجن کو ہوا سے الگ کیا اور اس کی افادیت انسانی جسم اور آگ کے لئے بیان کی ۔ 

 لاوزیر جس کو آجکل جدید کیمسٹری کا باپ مانا جاتا ہے سر قلم کر دیا گیا تھا اگر وہ زندہ رہتے تو کئی ایجادات کے بانی ہوتے ۔ امام جعفر الصادق لاوزیر سے 1100 سال پہلے کہہ گئے تھے کہ ہوا عنصر نہیں ہے 

 امام جعفر الصادق نے فرمایا کہ ہوا میں کئی عناصر ہیں اور یہ تمام عناصر حیات کےلئے ضروری ہیں لاوزیر نے کہا کہ یہ صرف آکسیجن ہی ہے جو کہ زندہ رہنے کےلئے ضروری ہے جبکہ دیگر یورپی سائنسدان بھی لاوزیر کی اس بات سے متفق تھے انیسویں صدی کے وسط میں سائنسدانوں کو اپنے نظریہ کی تصحیح کرنی پڑی  کہ سانس لینے کےلئے آکسیجن کے ساتھ دوسرے عناصر بھی ضروری ہیں۔ 

وقت گزرنے کے ساتھ یہ ثابت ہو گیا کہ آکسیجن خون کو صاف کرتی ہے اور قابل جلاؤ اشیاء کو جلا دیتی ہے اور اگر جاندار خالص آکسیجن لیں تو کچھ ٹائم بعد وہ آکسی ڈائیڈ ہو جائیں آکسیجن جانداروں کو نقصان نہیں پہنچاتی کیونکہ یہ دوسری گیسوں کے ساتھ مکس ہو کر اندر جاتی ہے ۔

وہ گیسز جو کہ انتہائی قلیل مقدار میں ہوا میں موجود ہیں وہ بھی سانس لینے کے لئے اہم ہیں۔ اوزون جو آکسیجن کی طرح خصائص رکھتی ہے سانس لینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اوزون خون میں آکسیجن کی تصحیح کرتی ہے اوزون کے بغیر آکسیجن خون صاف نہیں کر سکتی۔

 کیونکہ آکسیجن سب سے بھاری گیس ہے اس لئے وہ نیچے بیٹھے گی اور زمین کی سطح پر خاص حد تک چھا جائے گی اس طرح اشیاء کو آ گ لگ جائے گی اور جانور نا پید ہو جائیں گے ، کاربن ڈائی آکسائیڈ کی فراہمی بھی رک جائےگی جو کہ نباتات کے لئے انتہائی ضروری ہے نتیجتاً نباتات بھی نہیں اُگیں گے ۔ جعفر الصادق کا وہ نظریہ کہ جس میں کہا گیا سانس لینے کےلئے تمام گیسوں کا ہوا میں موجود رہنا سانس لینے کے لئے ضروری ہے صحیح ثابت ہوتا ہے ۔

آج یہ عام بات محسوس ہوتی ہے لیکن پہلی صدی (ہجری) یہ بات انقلابی سمجھی جاتی تھی کہ ہوا ایک عنصر نہیں ہے مشرقی علاقوں میں یہ بات کھل کر بیان کی جا سکتی تھی جیسا کہ شہر پیامبرؐ میں جبکہ ایسے نظریے یورپ میں قطعاً برداشت نہ کیے جاتے اسلام میں اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ہوا عنصر نہیں ہے تو کوئی شخص ایسے نہیں کہہ سکتا کہ یہ شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا ہے لیکن کئی مذاہب کے ماننے والے ایسے ہیں جو ہوا اور پانی کو خالص اور ایک عنصر تصور کرتے ہیں ان کے نزدیک ایسے کہنا کہ ہوا عنصر نہیں ہے مذہب سے پھرنا/مرتد ہونا کے برابر ہے۔

پریسٹلی 1733 بعد از مسیح پیدا ہوا اور 1804 بعد از مسیح وفات پاگیا اس نے آکسیجن دریافت کی لیکن یہ لاوزیر تھا جس نے آکسیجن کے خصائص بتائے لیکن اس بات کی کوئی شہادت نہیں ملی کہ پریسٹلی نے آکسیجن کو نام دیا ویسے آکسیجن ایک یونانی لفظ ہے جو کہ دو الفاظ کا مرکب ہے۔ آکسی (Oxy)مطلب تیزابیت جبکہ جن (Gen) کا مطلب پیدا کرنے والا ہے اس طرح اس کا مطلب ہوا تیزابیت پیدا کرنے والا۔ 

پریسٹلی مشہور مذہبی عالم تھا جو کہ روایتی اور مذہبی معاملات سے نکل کر لیبارٹری کی طرف آیا تھا اس نے بہت بڑی ایجاد کر ڈالی تھی اگر وہ سیاست میں داخل نہ ہوتا اور اپنی تحقیق جاری رکھتا تو شاید وہ آکسیجن کے خواص بھی بتا دیتا لیکن سیاست نے پریسٹلی کو ایسا نہ کرنے دیا وہ کٹر قسم کا فرانسیسی انقلاب کا حامی تھا اسی وجہ سے انگلینڈ میں پریسٹلی سے انتہائی نفرت کی جاتی نتیجتاً اسے ہجرت کرنا پڑی اور امریکہ چلا گیا پریسٹلی نے وہاں چند کتابیں لکھیں لیکن آکسیجن پرمزید تحقیق نہ کر سکا۔

امام جعفر الصادق پہلی شخصیت تھی جس نے بتایا کہ آکسیجن تیزابیت پیدا کرتی ہے انہوں نے براہ راست نہیں فرمایا کہ آکسیجن تیزابیت پیدا کرتی ہے انہوں نے فرمایا ہوا میں کئی عناصر ہیں اور ایک عنصر وہ ہے جس سے زیادہ تبدیلیاں رونما ہوتیں ہیں یہ وہی عنصر ہے جو ایندھن میں استعمال ہو تا ہے اس عنصر کے بغیر آگ نہیں لگ سکتی اس عنصر کو اگر ہوا سے الگ کر دیا جائے تو یہ عنصر اتنا طاقتور اور متحرک ہے کہ لوہے کو آگ لگا دے۔

بعد میں تجربوں نے ثابت کیا آکسیجن لوہے کو جلا سکتی ہے جبکہ جعفر الصادق نے فرمایا تھا اگر گرم لوہے کا ڈنڈا (راڈ) اٹھائیں اور خالص آکسیجن میں ڈبو دی تو لوہا انتہائی روشنی سے جلے گا جیسا کہ پرانے وقتوں میں لوگ مٹی کا تیل اور سبزیوں پر کپڑا استعمال کر کے روشنی کرتے تھے۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ محمد الباقر العلوم جو کہ والد گرامی تھے جعفر الصادق کے نے دوران تدریس فرمایا کہ سائنسی طریقے استعمال کر کے ہم پانی سے آگ پیدا کر سکتے ہیں اور یہ آگ عام آگ کو بجھا سکتی ہے اور اٹھارہویں صدی تک یہ محض ایک پہیلی ہی رہی آخر کار یہ پتہ لگا لیا گیا کہ پانی سے پیدا کی گئی آگ لکڑی اور کوئلہ سے زیادہ حرارت رکھتی ہے اگر آکسیجن اور ہائیدروجن دونوں کی مدد سے آگ لگائی  جائے تو اس کی حرارت667 ڈگری ہوتی ہے اور یہ دونوں عناصر پانی کے جزیات ہیں اس عمل کو آکسی ڈیشن کہا جاتا ہے یہ عمل دھاتوں کو کاٹنے اور جوڑنے کےلئے استعمال ہوتا ہے ۔

یہ کہیں ثابت نہیں کہ محمد باقر العلوم یا جعفر الصادق نے آکسیجن یا ہائیڈروجن خالص شکل میں حاصل کی ہو مندرجہ ذیل ان کے نظریات ہیں بلکہ یہ وہ نتائج ہیں جو بعد از تجربات انہیں حاصل ہوئے۔

1.     ہوا میں ایک عنصر ایسا ہے جو سانس لینے کےلئے ضروری ہے اور یہی عنصر باعث زندگی ہے۔

2.     اور یہ وہی عنصر ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اور زیادہ تر براہ راست ردعمل کر کے مختلف تبدیلیاں لاتا ہے /ساڑ (گلنا) دیتا ہے ۔

یہاں براہ رست رد عمل کو ذہن میں رکھیں تا کہ آپ جانچ کر سکیں کہ جعفر الصادق آکسیجن کے خصائص کے متعلق کس قدر صحیح تھے۔

بعد اس کے کہ پریسٹلی اور لاوزیر نے آکسیجن کو دریافت کیا اور اس کے خصائص جانے یہ مانا جانے لگا کہ صرف آکسیجن ہی ہے جو مختلف مادوں کے ساتھ رد عمل کرتی ہے اور تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے اور اشیاء کا جلنا سڑنا بھی محض اسی آکسیجن کی وجہ سے ہے بعد میں پاسچر نے ایجاد کیا کہ خوراک کا گلنا، جانوروں کے مردہ اجسام کا گلنا اور ایسے دیگر معاملات مائیکروب کی وجہ سے ہوتے ہیں نہ کہ آکسیجن کی وجہ سے ۔ پاسچر کو بات پتہ ہونی چاہیے تھی کہ مائیکروب بھی آکسیجن پر منحصر ہوتا ہے اور یہاں جعفر الصادق کی وہ بات صادق آتی ہے کہ آکسیجن زیادہ تر براہ راست عمل کرتی ہے اور کہیں بلواسطہ ۔

امام جعفر الصادق نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ عنصر جو حیات کے لئے ضروری ہے وہ دوسرے عناصر سے وزنی ہے اور یہ بہت اہم ایجاد تھی ایک ہزار سال بعد لاوزیر نے بتایا کہ 9 کلو گرام پانی میں 8 کلو گرام آکسیجن ہوتی ہے اور ہائیڈروجن جو کہ سائز میں آکسیجن سے دوگنی ہوتی ہے صرف ایک کلو گرام ہوتی ہے ۔ 

جعفر الصادق پردہ فرما گئے اور آکسیجن جو زندگی کےلئے ضروری ہے اور باعث تیزابیت ہے پر تحقیق رک گئی بیشک امام جعفر الصادق آکسیجن پر تحقیق میں اولین میں سے تھے اور بانی تھے ۔

لاوزیر بھی آکسیجن کو مائع میں نہ بدل سکا کیونکہ اٹھارہویں صدی میں سائنس اتنی ترقی یافتہ نہ تھی اور نہ لاوزیر کو زندگی نے اجازت بخشی کہ وہ آکسیجن کو مائع بنا پاتا۔

بعد از لاوزیر یہ مانا جاتا رہا کہ آکسیجن کو مائع نہیں بنایا جا سکتا بالآخر بیسویں صدی میں سائنس اتنی ترقی کر چکی تھی کہ کم سے کم درجہ حرارت لیبارٹریوں میں قائم رکھا جا سکتا تھا ، آکسیجن کو منفی 83 سینٹی گریڈ پر مائع شکل میں (عام دباؤ پر) حاصل کیا گیا ۔

آجکل کے سائنسدانوں کے کئی نظریات پہلے وقتوں میں بھی بیان کیے جا چکے تھے لیکن عملی جامہ نہ پہنانے کی وجہ سے معدوم ہو گئے حضرت عیسی سے پانچ سو سال پہلے ڈیموکرائیٹس نے ایٹم کے نظریہ کو پیش کر دیا تھا کہ مادہ ایٹموں کا مجموعہ ہے اور ایٹموں میں تیزی سے نقل و حرکت ہوتی ہے ۔ تھوڑی دیر کے لئے ہم الیکڑان، پروٹان اور نیوٹران وغیرہ کو بھول جائیں تو ہم جان سکیں گے کہ ڈیموکرائیٹس کس قدر درست تھا جرمن نے جنگ کےلئے ایٹموں سے طاقت بنانا چاہی لیکن امریکی سبقت لے گئے اور انہوں نے ایٹم بم بنا ڈالا۔



ایک تبصرہ شائع کریں