🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
حضرت آسیہ سلام اللّٰہ علیہا
۔********************
نسب و تعارف :
۔"" "" "" "" ""
مشہور قول کے مُطَابِق حضرتِ آسیہ سلام اللّٰہ علیہا بادشاہِ مصر ریّان بن وَلِیْد کی اولاد میں سے تھیں۔ آپ کا نَسَب کچھ یوں ہے: آسِیہ بنتِ مُزَاحِم بن عُبَیْد بن رَیَّان بن وَلِیْد۔ یہ ريّان بن وَلِيْد وہی ہیں جو حضرتِ سیِّدُنا يُوسُف علیہ السَّلام کے زمانےمیں بادشاہِ مصر تھے اور آپ علیہ السَّلام پر ایمان لے آئے تھے۔
( روح المعانى، پ20، القصص، تحت الآیۃ: 9، جزء20، ص 344۔نورالعرفان، پ20، القصص، ص615۔ المناقب المزیدیہ،ج1،ص38)
مساکین کی پناہ گاہ :
۔"" "" "" "" "" "" "" ""
حضرتِ آسیہؒ مصر کے انتہائی ظالم و جابِر بادشاہ فرعون کی بیوی تھیں۔ بہت پارسا اور ہمدرد خاتون تھیں۔ بادشاہِ وقت کی بیوی ہونے کے سبب آپ کے پاس مال و دولت کی کثرت تھی۔ لیکن اس کے باوجود آپ غرور و تکبّر کا شکار نہیں تھیں، بلکہ آپ کا دل غریبوں کی مَحبّت سے سَرشار اور ان پر شفقت و مہربانی کے جذبے سے مَعْمُور تھا۔ آپ دل کھول کر ان پر صَدَقہ و خیرات کیا کرتیں۔ اسی وجہ سے آپ کو اُمُّ الْمَسَاکِیْن (یعنی مسکینوں کی ماں پناہ گاہ) کہا گیا ہے۔
(بغوى، پ20، القصص،تحت الآیۃ:9،ج 3، ص375، مستدرك ، ج 3، ص457، حديث: 4150 ماخوذاً)
فرعون سے بے رغبتی :
۔"" "" "" "" "" "" "" ""
فرعون چونکہ لوگوں کے ساتھ بہت ظالمانہ سُلوک کیا کرتا تھا، اس لئے آپ اس سے سَخْت بیزار تھیں۔ فرعون سے آپ کا نِکاح بھی بَرِضَا و رغبت نہیں ہوا تھا، بلکہ آپ اور آپ کے والِد دونوں اسے ناپسند کرتے تھے۔ فرعون نے بادشاہت کے زور پر جَبراً آپ سے نِکاح کیا تھا۔ آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی اور جو بعض رِوایات میں فرعون کی ایک بیٹی کا ذِکْر ملتا ہے ممکن ہے یہ لڑکی لے پالک ہو یعنی کسی دوسرے سے لے کر پالی گئی ہو۔ (نورالعرفان، پ20، القصص، تحت الآیۃ: 9، ص464 مفہوماً)
نبی کا نام رکھنے کا اعزاز :
۔"" "" "" "" "" "" "" "" ""
حضرتِ آسیہؒ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ نے حضرت سیّدنا موسیٰ السَّلام کا نام رکھا۔
( خازن، پ20، القصص، تحت الآیۃ:7، ج 3ِص 425)
حضرتِ سیّدنا موسیٰ علیہ السَّلام کی والدہ نے فرعون کے سپاہیوں کے ڈر سے آپ کو ایک صندوق میں رکھ کر دریا میں ڈال دیا۔ دریا سے ایک نہر فرعون کے محل کے پاس سے بہتی تھی، یہ صندوق بہتا ہوا اس نہر میں چلا گیا۔ فرعون نے حکم دیا کہ اسے محل میں لا کر کھولا جائے۔ جب صندوق کھولا گیا تو اس سے ایک خوبصورت بچہ نکلا۔ قِبطی زَبان میں پانی کو ”مُو“ اور درخت کو ”سیٰ“ کہتے ہیں۔ یہ صندوق پانی اور درختوں کے درمیان پایا گیا تھا، اس وجہ سے حضرت آسیہؒ نے آپ کا نام موسیٰ رکھا۔
(در منثور، پ20، القصص، تحت الآیۃ :4، ج 6، ص391، عجائب القراٰن، ص174 ماخوذاً)
آنکھوں کی ٹھنڈک :
۔"" "" "" "" "" "" ""
حضرتِ موسیٰ علیہ السَّلام بچپن میں جب حضرتِ آسیہؒ کی گود میں آئے تو آپ نے حضرتِ سیّدُنا موسیٰ علیہ الصّلاۃ السَّلام کے چہرے میں نورِ نُبُوّت دیکھ کر انہیں اپنا بیٹا بنا لیا اور فرعون سے جو کہا اسے قراٰنِ پاک میں یوں بیان کیا گیا:
وَ قَالَتِ امۡرَاَتُ فِرۡعَوۡنَ قُرَّتُ عَیۡنٍ لِّیۡ وَ لَکَ ؕ لَا تَقۡتُلُوۡہُ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّنۡفَعَنَاۤ اَوۡ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۹﴾
ترجمہ : اور فرعون کی بیوی نے ( فرعون سے ) کہا کہ : یہ بچہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اسے قتل نہ کرو ، کچھ بعید نہیں کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے ، یا ہم اسے بیٹا بنا لیں، اور ( یہ فیصلہ کرتے وقت ) انہیں انجام کا پتہ نہیں تھا ۔
(سورۃ القصص : ٩)
اس پر بدبخت فرعون نے کہا کہ اسے تم رکھ لو، مجھے اس کی کوئی حاجَت نہیں۔ آنحضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: اگر آسیہ کی طرح فرعون بھی اس بات کا اقرار کرتا کہ یہ بچّہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے تو ضَرور اللہ پاک اسے ہِدَایَت عطا فرما دیتا، جیسے آسیہ کو عطا فرمائی۔
(تفسير كبير، پ20، القصص، تحت الآيہ: 9، ج8، ص581)
آسیہ نے موسیٰؑ کو اپنا فرزند قبول کر کے درحقیت انہیں ان کی حتمی موت سے بچا لیا اور قوم بنی اسرائیل کی نجات کا سامان فراہم کیا۔ اس لئے قرآن کریم نے آسیہ جیسی عورتوں کے رائے و مشورے کو جن کا عقیدہ و کردار عقلی اور منطقی تھا، مفید و مستحسن قرار دیا ہے۔ اگر فرعون دوسرے امور میں بھی آسیہ کے عقلی اور معتبر نظریوں کی پیروی کرتا تو کبھی بھی بلا و مصیبت میں غرق نہ ہوتا اور خود کو ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ کا ایندھن نہ بناتا۔ پس ایک آزاد اور صالح عورت، مردوں اور تمام معاشرے کی ترقی و کامیابی کے لئے بہترین مشاور و رہنما بن سکتی ہے ۔
ایمان کیسے نصیب ہوا؟
۔"" "" "" "" "" "" "" ""
حضرت موسی علیہ السلام کے عہدہ نبوت پر فائز ہونے کے بعد سب سے پہلے حضرت آسیہ ان پر اور خدا پر ایمان لائیں۔ جادو گروں کے سحر اور حضرت موسیٰ علیہ السَّلام کے معجزے کے سنسنی خیز مُقَابَلے سے حق ظاہر ہونے کے بعد جہاں جادو گروں کو دولتِ ایمان نصیب ہوئی، وہیں جب آپ کو اس مُقَابَلے کا حال معلوم ہوا تو آپ کے دل میں بھی فوراً حق کا نور چمک اُٹھا اور آپ حضرت موسیٰ علیہ السَّلام پر ایمان لے آئیں۔ اور بہت دنوں تک اپنے ایمان کو چھپائے رکھا۔
نمونۂ استقامت :
۔"" "" "" "" "" ""
فرعون، کفر کے اس مرحلے میں پہنچ گیا تھا کہ خود کو خدا کہلانے لگا ۔ لیکن آسیہ کا دل خدائے وحدہ لاشریک کے عشق سے سرشار تھا اس لئے فرعون کی خدائی کو قبول نہیں کیا اور خود فرعون کی قدرت و طاقت اور اس کا کفر ان کے ایمان پر غالب نہ ہو سکا۔ خداوندِ عالم قرآن کریم میں فرعون کی بیوی کی مثال دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ آسیہ خدا پر صدقِ دل سے ایمان لائیں تو خدا نے انہیں نجات عطا کی اور جنت میں داخل کر دیا اور فرعون جیسا کافر شوہر بھی ان کے ایمان کو متزلزل نہ کر سکا ۔
مردوں کی طرح عورتیں بھی صحیح و سالم معاشرے کی تعمیر ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور معاشرے میں رونما ہونے والے ہر طرح کے ظلم و فساد کا مقابلہ کر کے ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل دے سکتی ہیں۔ حضرت آسیہ بھی ایسی ہی عظیم و با استقامت خواتین میں سے تھیں جنہوں نے ایسا عظیم کردار ادا کیا اسی لئے خداوندِ عالم قرآن کریم میں حضرت آسیہ کی استقامت اور عظمت و ستائش بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
خدا نے ایمان والوں کے لئے فرعون کی زوجہ کی مثال بیان کی ہے کہ اس نے دعا کی کہ "پروردگار! میرے لئے جنت میں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون اور اس کے کاروبار سے نجات دلا دے اور اس پوری ظالم قوم سے نجات عطا کر دے"
(سورۃ التحریم : ١١)
قرآن کریم کی نظر میں حضرت آسیہ حق کی شناخت و بصیرت سے آگاہ تھیں انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنی شجاعت و بہادری کے ساتھ اپنے کافر شوہر کی پیروی نہیں کی بلکہ اپنے عقیدہ و ثقافت میں بھی پوری آزاد تھیں اسی لئے قرآن کریم نے آسیہ کو مومنین کے لئے اسوہ و نمونہ قرار دیا ہے اور یہ اسوہ اور نمونہ عورتوں کے آزاد اور مستقل عقیدہ و ثقافت پر بہترین دلیل ہے ۔
آسیہ ایک شجاع و بہادر اور حق پرست خاتون تھیں۔ اس خدا پرست خاتون کے ایمان راسخ اور شجاعت و دلیری نے انہیں ایسی منزل پر فائز کر دیا کہ بارگاہِ الٰہی کے مخلص بندے جنت میں ان کا مقام و مرتبہ دیکھ کر افتخار و تعجب کریں گے ۔
رامسس دوم فرعونِ مصر اور اس کا خوبصورت محل آسیہ کو فریقتہ نہ کر سکا۔ آسیہ کا پاکیزہ ضمیر بیدار تھا۔ ان کےقلب پر ایمان و توحید پروردگار کا پہرہ تھا جس کی بناء پر فرعون کے مادی اور تسلط پسند جذبات آسیہ پر ذرہ برابر بھی اثر نہ کر سکے۔ وہ ایسی پاکیزہ خاتون تھیں جنہوں نے خدا پر مکمل و راسخ ایمان کے ساتھ فرعون کے گناہوں سے معمور محل کو لرزہ براندام کر دیا۔ اور اپنی پاکیزہ فطرت کو فرعون کے کفر سے نجات بخشی ۔ قرآن کریم نے جناب آسیہ کو لوگوں کے لئے نمونہ و اسوہ قرار دیا ہے تاکہ لوگ غیر مناسب اور گناہ سے بھرپور حالات میں بھی اپنے ایمان کو نجات بخشیں اور اسے ضلالت و گمراہی کا بہانہ نہ بنائیں۔ فرمایا کہ؛
وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَ°
ترجمہ : ”اور جن لوگوں نے ایمان اختیار کیا ہے ، ان کے لیے اللہ ، فرعون کی بیوی کو مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔“
(سورۃ التحریم : ١١)
جب فرعون کو آسیہ کے ایمان کے بارے میں خبر ملی تو اس نے بہت زیادہ کوششیں کی تاکہ کسی نہ کسی طرح انہیں راہ راست سے منحرف کر دے لیکن وہ ایسا نہ کر سکا اور آسیہ نے بھی اس کی تمام کوششوں کو ناکام بنا کر صرف خدائے واحد کی عبادت میں مصروف رہیں۔ حضرت آسیہ نے حضرت موسیٰؑ علیہ السلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے فرعون سے بہت زيادہ بحث و مناظرہ کیا مگر فرعون آسیہ کے ایمان و عقیدے کو بدلنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
قصرِ فرعون روز بروز پر آشوب ہوتا گیا اور آسیہ نے فرعون سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور حضرت موسیٰؑ کا دفاع کرتی رہیں ۔حضرت موسیٰؑ کے چاہنے والے فرعون کے سپاہیوں کے ہاتھوں ظلم و ستم کی بھینٹ چڑھ رہے تھے اور انہیں بے دردی کے ساتھ قتل کیا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ فرعون نے حضرت موسیٰؑ پر ایمان لانے والے ایک شخص کہ ، جسے قرآن کریم نے "مومن آل فرعون" کے نام سے یاد کیا ہے بڑی ہی بے دردی سے قتل کر دیا۔ جس کے بعد آسیہ کے صبر کا پیمانہ چھلک اٹھا اور کھلم کھلا فرعون کی مخالفت کرنے لگیں۔ فرعون میں غیظ و غضب کی آگ بھڑک اٹھی اور اس نے اپنی زوجہ آسیہ کو بہت ہی دردناک طریقے سے ایذائیں پہنچائیں ۔
شہادت :
۔" "" ""
جب فرعون نے آپ کو ایمان سے پھیرنے کی تمام تدبیریں کر لیں اور اسے ناکامی کا سامنا ہوا تو اس نے آپ کو شہید کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ شہادت سے پہلے آپ نے بارگاہِ الٰہی میں جو اِلتجا کی اسے قراٰنِ پاک میں یوں بیان فرمایا گیا:
رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾
ترجمہ : میرے پروردگار ! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے ، اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دیدے ، اور مجھے ظالم لوگوں سے بھی نجات عطا فرما ۔
(سورۃ التحريم : ١١)
بعض روایات میں آیا ہے کہ فرعون نے حضرت آسیہ کو مصر کے تپتے سورج کے نیچے زمین پر لٹا کر چار کیلیں ٹھونک دیں اور سخت ایذائیں پہنچائیں۔ فرعون نے اپنے کارندوں سے کہا کہ ایک بڑی چٹان لاؤ، اگر چٹان دیکھ کر بھی یہ ایمان پر قائم رہتی ہے تو چٹان اس پر گرا دو اور اگر ایمان سے پِھر جاتی ہےتو یہ میری بیوی ہے۔(اسے مَت مارنا)۔ چنانچہ جب آپ کے سامنے چٹان لائی گئی تو آسمان کی طرف آپ کو اپنا جنّتی مَحل نَظر آیا۔ جس سے آپ کے عَزْم و اِسْتِقلال میں اور بھی اضافہ ہو گیا اور اسی حالت میں آپ کی روح پرواز کر گئی۔ اس کے بعد جب آپ پر چٹان گرائی گئی تو وہ ایسے بدن پر گری جس میں روح نہیں تھی۔ (تفسير طبرى، ج 12، ص 162، التحريم :11 )
مزارِ مُبَارَک :
۔"" "" "" ""
آپ کا مزارِ مُبَارَک مصر میں واقع ہے۔
(معجم البلدان، ج 4، ص277 ماخوذًا)
جنّت میں آنحضور ﷺ سے نکاح :
۔"" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "
حضرت آسیہؒ کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ہے کہ آپ جنّت میں آنحضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زوجہ ہوں گی، چنانچہ مروی ہے کہ جب اُمُّ المؤمنین حضرتِ خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے مرضِ وفات میں سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لائے اور فرمایا: اے خدیجہؓ! تمہیں اس حالت میں دیکھنا مجھے گِراں (یعنی ناگوار) گزرتا ہے لیکن اللہ پاک نے اس گِراں گزرنے میں کثیر بَھلائی رکھی ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ پاک نے جنّت میں میرا نکاح تمہارے ساتھ، مریم بِنْتِ عمران، (حضرتِ) موسیٰؑ کی بہن کُلْثُمْ اور فرعون کی بیوی آسیہ کے ساتھ فرمایا ہے۔ (معجم كبير، ج 22ِص451، حديث: 1100 )
حاصلات :
۔"" "" ""
حضرت آسیہ کی استقامت ایک شجاع و بہادار اور پاک و پاکیزہ با ایمان عورت کی نشاندہی کرتی ہے کہ جس نے حق کا اعتراف اور باطل قوت کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر لیا۔ تاریخِ بشریت میں حضرت آسیہ کی استقامت ، تمام حق پرستوں اور منزل کمال کے متلاشیوں کے لئے بہت بڑا درس ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے جناب آسیہ کو کائنات کی ان چار عظیم خواتین یعنی حضرت فاطمہؓ ، حضرت خدیجہؓ اور حضرت مریم سلام اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ شمار کیا ہے ۔
ابن عباسؓ بیان کرتے ہيں کہ نبی اكرم ﷺ نے زمین پر چار لکیریں لگائيں اور فرمانے لگے:
کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآله و سلم) کو زيادہ علم ہے ، رسول خدا نے فرمایا :
جنتی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہؓ بنت خویلد اور فاطمہؓ بنت محمدؐ اور فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم اور مریم بنت عمران ہیں۔
(مسند احمد : ١٠۴١٢ ، ١٠۵۵۷)
اس کے علاوہ حضرت آسیہ کی زندگی کا مطالعہ، ایسی تمام خواتین کے لئے نمونہ عمل ہے جو اپنے گھر کے ماحول یا اپنے شوہر کے عمل کو دین کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ قرار دیتی ہیں۔ کیونکہ عورتوں کے اندر اتنی طاقت و قدرت موجود ہے جو ہر طرح کے ظلم و فساد ، اخلاقی بے راہ روی اور پستی وبرائی کا خاتمہ کر سکتی ہیں اور اگر ان کا شوہر فرعون کی طرح سنگدل نہ ہو تو یہ اپنی عقل و تدبیر اور نیک اخلاق و کردار سے اسے راہِ حق و صداقت پر گامزن کر سکتی ہیں ۔
❂▬▬▬๑۩۞۩๑▬▬▬❂
*✿► ||اردو ادب || ◄✿*
❂▬▬▬๑۩۞۩๑▬▬▬❂
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺