Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link
اشاعتیں

ام ربابؑ زوجہ امام حسینؑ

4 min read
🌷 ام ربابؑ زوجہ امام حسینؑ 🌷

ام رباب امام حسینؑ کی زوجہ، سکینہ اور علی اصغر (عبداللہ رضیع) کی مادر گرامی ہیں۔ آپ کو اہل علم اور اہل فصاحت و بلاغت کہا گیا ہے۔ رباب واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور اسیروں کے ہمراہ شام کا سفر بھی کیا۔ آپ کی وفات کی وجہ شدید مصائب کہا گیا ہے۔ آپ کی وفات 6 ربیع الاول یا 21 رجب 62 ہجری کو ہوئی۔

■ نسب
رباب امرؤالقیس عدی کی بیٹی ہیں۔ آپ کے والد شام کے عرب اور نصرانی تھے جو کہ عمر کے دور خلافت میں مسلمان ہوئے۔ رباب کی مادر جن کا نام ہندالہنود اور وہ ربیع بن مسعود بن مصاد بن حصن بن کعب کی بیٹی تھی۔[1]

■ خصوصیات
سید محسن امین نے کتاب الاغانی سے ہشام کلبی کا قول نقل کیا ہے کہ رباب عورتوں میں فضیلت، خوبصورتی، ادب اور عقل کے لحاظ سے بہترین و برترین تھیں۔[2]

■ ازدواج
ایک قول کے مطابق امرؤالقیس حضرت علیؑ کے ساتھ بہت عقیدت اور محبت رکھتا تھا جس کی وجہ سے اپنی ایک بیٹی کا نکاح امیرالمومنینؑ اور ایک کا امام حسنؑ اور ایک (ام رباب) کا امام حسینؑ کے ساتھ کیا۔[3]

■ امام حسینؑ کی محبت
امام حسینؑ رباب کو بہت زیادہ چاہتے تھے۔[4] اور آپ کے بارے میں شعر بھی پڑھتے تھے۔ ایک شعر جو امامؑ سے منسوب ہے اس میں آپ فرماتے ہیں کہ جس گھر میں رباب اور سکینہ ہوں مجھے وہ گھر پسند ہے۔[5]

■ اولاد
رباب سے امام حسینؑ کی دو اولادیں تھیں۔ ایک سکینہ اور دوسری عبداللہ۔ عبداللہ (علی اصغر) جو نہایت کمسنی میں عاشور کے دن اپنے بابا کی آغوش میں شہادت پر فائز ہوئے۔[6]

■ کربلا میں موجودگی
ام رباب کربلا میں موجود تھیں اور اسیروں کے ہمراہ شام بھی گئیں۔ کہا گیا ہے کہ آپ نے علی اصغرؑ کی اپنے بابا کی آغوش میں شہادت کو مشاہدہ فرمایا۔[7] ابن کثیر دمشقی کے مطابق آپ کربلا میں امام حسینؑ کے ہمراہ تھیں اور جب امام حسینؑ شہید ہو گئے تو بہت بے تاب تھیں۔[8] اور امام حسینؑ کی شہادت کے بعد ان کے یہ شعر منقول ہیں:

ترجمہ:
وہ ایسا نور تھا جس سے روشنی حاصل کی جاتی جسے کربلا میں شہید کر کے دفن نہیں کیا گیا ۔۔۔۔ آپ میرے لئے ایک پناہ گاہ اور تکیہ گاہ تھے۔ اور آپ ہمارے ساتھ رحمت اور دینداری سے پیش آتے۔[9]

اسی طرح ایک اور قول کے مطابق رباب نے ابن زیاد کے دربار میں امام حسینؑ بن علیؑ کا سر مبارک اپنی آغوش میں لے کر بوسہ لیا اور یوں کہا:
میں نے آپ کو نہیں بھلایا دشمن کے نیزوں نے آپ کے بدن کو چاک کر دیا۔ انہوں نے چال کے ذریعے آپ کو کربلا میں شہید کیا اے اللہ کربلا کے اطراف کو سیراب نہ کر۔[10]

■ واقعہ کربلا کے بعد
بعض قول کے مطابق رباب واقعہ کربلا کے ایک سال بعد تک امام حسینؑ کی قبر کے پاس کربلا میں ہی رہیں اور پھر مدینہ لوٹ گئیں۔ لیکن شہید قاضی طباطبائی کا قول ہے کہ رباب نے مدینہ میں عزاداری کی نہ کہ کربلا میں اور وہ کہتے ہیں: اگرچہ امام سجادؑ بھی اس بات پر راضی نہ ہوتے کہ امام حسینؑ کی زوجہ اکیلی کربلا میں رہیں اس کے علاوہ خود آپ کی شخصیت بھی ایسی نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں: کوئی بھی یقینی طور پر یوں نہیں کہتا کہ یہ معظمہ خاتون پورا ایک سال امامؑ کی قبر پر رہیں ہیں، ابن اثیر نے بھی اپنے قول کا کوئی قائل ذکر نہیں کیا، اس لئے پہلا قول کہ آپ شہادت کے بعد پورا سال قبر کے پاس رہیں اور اس کے بعد اس دنیا سے چل بسیں، ضعیف قول ہے۔[11]

مصقلہ الطحان نے امام صادقؑ سے روایت نقل کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: جب حسینؑ شہید ہو گئے تو آپ کی زوجہ رباب آپ کے لئے مجلس بپا کرتی خود بھی روتی اور آپ کی خدمت کرنے والی بھی گریہ کرتیں یہانتک کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو خشک ہو گئے۔ اس وقت اپنی ایک کنیز کو دیکھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اس کو بلا کو سوال کیا: کیا وجہ ہے کہ ہم سب کے درمیان صرف تمہارے آنسو خشک نہیں ہوئے؟ اس نے کہا: میں سویق کا شربت پیتی ہوں آپ نے بھی حکم دیا کہ سویق کا شربت منگوایا جائے اور وہی شربت پیا۔ اور اس کے بعد کہا کہ یہ شربت پی کر حسینؑ پر رونے کی طاقت پیدا کروں گی۔[12]

■ وفات
ابن کثیر لکھتا ہے: رباب واقعہ کربلا کے بعد ایک سال سے زیادہ زندہ نہ رہیں اور اس ایک سال میں درخت کے سائے میں نہ بیھٹیں اور شدید غم و اندوہ کی حالت میں اس دنیا سے چلی گئیں۔[13] سید محسن امین نے آپ کا سنہ وفات 62 ہجری (یعنی عاشورا کے ایک سال بعد) لکھا ہے۔[14]

📚 حوالہ جات
1، 2۔ اعیان الشیعہ، ج۶، ص۴۴۹۔
3۔ انساب الاشراف، ج۲، ص۱۹۵؛ تاریخ مدینہ دمشق، ج۶۹، ص۱۱۹۔
4۔ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۲۸۔
5۔ اعیان‌ الشیعہ، ج۶، ص۴۴۹۔
6۔ الارشاد، ج۲، ص۱۳۵۔
7۔ اعیان‌الشیعة، ج۶، ص۴۴۹۔
8۔ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۲۹۔
9۔ صفدی، الوافی بالوفیات،14/53۔
10۔ دانشنامہ امام حسین(ع)، ج۱، ص۲۹۲-۲۹۳؛ تذکرة‌الخواص، ص۲۳۴۔
11۔ تحقیق دربارہ اول اربعین حضرت سید الشہدا علیہ‌السلام، ص۱۹۸ - ۲۰۰۔
12۔ کافی، ج۱، ص۴۶۶۔
13۔ الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۸۸۔
14۔ اعیان‌ الشیعہ، ج۶، ص۴۴۹۔

آپ ان پوسٹس کو پسند کر سکتے ہيں

  • دوران سفر اگر آپ معلوم کرنا چاہیں کے سورج ڈھلنے میں کتنی دیر ہے؟سب سے پہلے آپ نے سورج کی جانب رخ کرنا ہے۔۔پھر اپنا بازو اپنے سامنے اس طرح پھیلانا ہے کہ آپ کی انگلیاں اف…
  •  نعت گو شاعر‘ بیوروکریٹ‘ ماہر لسانیات اور دانشور عبدالعزیز خالد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔…
  • *کچھ موڈ فریش کرلو**خوش طبی وعجیب**😄😀😄😜بد سے بدنام برا 😀😄😆**ایک غریب آدمی روزانہ ایک کاغذ پر**“اے میرے پروردگار مجھے ایک لاکھ روپے بھیج دے”**لکھ کر ایک غبارے کے ساتھ باندھ د…
  • #ترکوں کی مکمل آبادی.....دنیا میں موجودہ ترکوں کی آبادی ایک تخمینے کے لحاظ سے 600 ملین (60 کروڑ) سے زائد بتائی جاتی ہے. علامہ ابن خلدون اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ "ترک دنیا کی سب س…
  • معروف نقاد، محقق اور مترجم مظفر علی سید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مظفر علی سید 6 دسمبر 1929ء کو امرتس…
  • خشک آلو بخارے ہڈیوں کو مضبوط بنانے میں مفید قرار خشک آلو بخارے اپنے کھٹے میٹھے ذائقے کے باعث کھانے میں بہت پسند کیے جاتے ہیں، خشک آلو بخارا کھانے میں بہت مزیدار لگتا ہے اور …

ایک تبصرہ شائع کریں