Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link
المشاركات

‎معروف شاعر شہاب جعفری

 معروف شاعر شہاب جعفری 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہاب جعفری کی شاعری کا زمانہ وہ ہے جب ترقی پسند تحریک زوال پزیر تھی اور حلقہ اربابِ ذوق کا رجحان عروج پر تھا۔ شہاب جعفری بھی کچھ برسوں ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے لیکن ان کی شاعری پر ترقی پسندی کا اثر نہیں ہے۔ ان کی شاعری دراصل اس دور کے دونوں مکاتیبِ فکر، ترقی پسندی اور حلقہ اربابِ ذوق کی کشمکش کی پیداوار ہے، جس میں ان دونوں مکاتیبِ فکر کے تصوّرات کی تھرتھراہٹیں موجود ہیں۔

شہاب جعفری 2 جون 1930ء کو بنارس میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے اور دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ شہاب جعفری خالصہ کالج، دہلی یونیورسٹی، دہلی میں اردو کے استاد تھے۔ انہوں نے بہت کچھ لکھا لیکن وقت اور حالات نے انہیں موقع نہیں دیا کہ وہ اپنے ادبی سرمایوں کو منظر عام پر لاتے۔ اس لیے ان کا صرف ایک ہی مجموعہ کلام’’سورج کا شہر‘‘ 1967ء میں شائع ہو سکا۔ 

شہاب جعفری نے اپنی شاعری کی ابتدا تو غزلوں سے کی لیکن ان کے مجموعہ کلام میں نظمیں، غزلیں، رباعیات کے علاوہ ایک طویل منظوم تمثیلی ڈرامہ بھی ہے۔ انہیں شہرت نظموں کے علاوہ غزلوں کی وجہ سے بھی ملی۔
شاعری کے ساتھ تھیٹر سے بھی وابستہ رہے۔ انہوں نے محمد حسن کے ساتھ لمبے عرصے تک کام کیا۔ شہاب جعفری کا مشہور شعر (تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا) بارہا پارلیمنٹ میں پڑھا گیا۔ روایت ہے کہ ایک بار اس شعر کو مولانا ابوالکلام آزاد نے پارلیمنٹ میں جواہر لال نہرو کو سنایا جبکہ اس وقت شہاب جعفری کی شاعری اپنے ابتدائی دنوں میں تھی۔ 1 فروری 2000ء کو وہ دہلی میں انتقال کر گئے-

بشکریہ ریختہ

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا 
مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلے تو پاوں کے نیچے کچل گئی کوئی شے
نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر:
ڈاکٹر عقیل احمد

شہاب جعفری کا فن

شہاب جعفری خالصہ کالج،دہلی یونیورسٹی،دہلی میں اردو کے استاد تھے۔انہوں نے بہت کچھ لکھا لیکن وقت اور حالات نے انہیں موقع نہیں دیا کہ وہ اپنے ادبی سرمایوں کو منظر عام پر لاتے اس لیے ان کا صرف ایک ہی مجموعہ کلام’’سورج کا شہر‘‘ شائع ہو سکا۔شہاب جعفری کی شاعری کا زمانہ وہ ہے جب ترقی پسند تحریک زوال پزیر تھی اور حلقہ اربابِ ذوق عروج پر تھا۔شہاب جعفری بھی ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے لیکن ان کی شاعری پر ترقی پسندی کا اثر نہیں ہے۔ان کی شاعری دراصل اس دور کے دونوں مکاتیبِ فکر، ترقی پسندی اور حلقہ اربابِ ذوق کی کشمکش کی پیداوار ہے جس میں ان دونوں مکاتیبِ فکر کے تصوّرات کی تھرتھراہٹیں موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شہاب جعفری کی شاعری میں وہ نعرہ بازی نہیں ہے جو اُس زمانے کے دوسرے ترقی پسند شاعروں کے کلام میں موجود ہے۔شہاب جعفری نے اپنے مخصوص مزاج کی وجہ سے کسی خاص تحریک یا رجحان کے دائرے میں خود کو مقید نہیں کیا۔

شہاب جعفری نے اپنی شاعری کی ابتدا تو غزلوں سے کی لیکن ان کے مجموعہ کلام میں نظمیں، غزلیں، رباعیات کے علاوہ ایک طویل منظوم تمثیلی ڈرامہ بھی ہے۔انہیں شہرت نظموں کے علاوہ غزلوں کی وجہ سے بھی ملی۔ان کی غزل کے بعض اشعار زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ مثلاً ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

چلے تو پاوں کے نیچے کچل گئی کوئی شے
نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے

شہاب جعفری بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے اور ان کی پہچان نظموں کی وجہ سے ہوئی۔ ان کی نظموں میں آزاد نظمیں اور معرّا نظموں کے علاوہ نثری نظم کے ابتدائی نمونے بھی ملتے ہیں۔ جدید نظموں کا دور تجربوں کا دور تھا۔اس دور کی شاعری کی ہیئت میں بے شمار تجربے کیے گئے اور روایت سے انحراف کیا گیا۔اس عمل میں بعض شعرا تو کامیاب رہے لیکن زیادہ تر شعرا ہیئت کے تجربے میں ناکام رہے اور ان کی ادبی پہچان نہ بن سکی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب شاعر روایت سے کلّی طور پر انحراف کرتا ہے اور نئے نئے تجربے کرتا ہے تو شاعری میں شعریت برقرار نہیں رہ پاتی لیکن شہاب جعفری نے نظموں میں ہر جگہ شعریت برقرار رکھی ہے۔ شہاب جعفری نے اپنی نظموں میں دیومالائی علامات کے استعمال سے الگ پہچان بنائی ہے اور الگ اسلوب قائم کیا۔

بڑے شاعروں کے کلام میں کوئی نہ کوئی کلیدی لفظ ضرور ہوتا ہے جس کا استعمال مختلف علامتوں کی شکل میں بار بار ہوتا ہے۔ مثلاً علامہ اقبال کے کلام میں شاہین، خرد اور جنون کا استعمال بہت ملتا ہے۔ بعض شاعروں کے کلام میں خنجر اور نشتر جیسے الفاظ ملتے ہیں۔ اس کی کوئی نہ کوئی نفسیاتی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ممکن ہے کہ بعض شعرا کے یہاں اس کی وجہ تہذیبی ہو، کچھ کے یہاں مذہبی اور بعض کے یہاں سماجی یا کچھ اور بھی ہو سکتی ہے۔ وجہ چاہے جو بھی ہو لیکن ایسے الفاظ شاعر کے شعور یا تحت شعور میں ہمہ وقت موجزن رہتے ہیں۔ شہاب جعفری کے کلام میں بھی سورج کلیدی لفظ ہے جس کا استعمال اپنی کئی نظموں میں مختلف علامات کے طور پر بار بار کیا ہے۔ مثلاً ’’سورج کا شہر‘‘، ’’ذرّے کی موت‘‘،’’گنہگار فرشتے‘‘،’’پسِ پردہ‘‘،’’آخری نسل‘‘، ’’خونیں صدیاں ‘‘، ’’ما حصل‘‘، ’’سورج کا زوال‘‘، ’’شہرِ انا میں ‘‘، وجدان‘‘،’’میں ‘‘ اور ’’شام اور کھنڈر‘‘ وغیرہ نظموں میں سورج کو خوشی، عیش و عشرت، ترقی، علم و آگہی، انا، خدا، طاقت، نئی نسل، روشنی کا سر چشمہ، سیارے، وغیرہ کی علامات کے طور پراستعمال کیا ہے اور ان علامت کی مدد سے شاعر نے زندگی کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ دراصل سائنسی اور جغرافیائی نظریے کے علاوہ شمسی دیومالائی تصورات کے مطابق بھی زرعی معیشت کی ترقی میں سورج کا رول بہت ہے۔یہاں ٹھہر کر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آخر سورج کی اہمیت ہماری تہذیب، معاشرہ اور ہماری زندگی میں کیا ہے؟سائنسی نظریے سے اگر اس کا جواب تلاش کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ سورج کی اہمیت زرعی معیشت کے اعتبار سے بہت ہے۔سورج کے طلوع ہونے اور غروب ہونے کی وجہ سے کس طرح صبح، دن، شام اور رات ہوتی ہے اور گردشِ صبح و شام کا ہماری زندگی پر کیا مثبت اثرات پڑتے ہیں ؟ شہاب جعفری کے کلام میں سورج کے مختلف کردار پر بحث کرنے سے پہلے یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ ہندستان کی مذہبی کتابوں یا ہندستانی مائیتھو لوجی میں سورج سے متعلق کیا کہا گیا ہے؟

ویدک اشلوکوں میں سورج کو ’’سُریا‘‘ اور ’’ساوتری‘‘ کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے۔کبھی کبھی ان دونوں ناموں کو ساتھ ساتھ لیا جاتا ہے تو کبھی ایک دوسرے کے بدل کے طور پر۔یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ صبح اور شام میں جو سورج نظر آتا ہے اسے ’’سُریا‘‘ کہا جاتا ہے اور جب سورج غروب ہو جاتا ہے تو اسے ’’ساوتری ‘‘کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ساوتری کی سنہری آنکھیں، سنہرے ہاتھ، سنہری زبان ہوتی ہے۔یہ بگھی کی سواری کرتا ہے جسے سفید پاؤ ں والے چمکیلے گھوڑے کھینچتے ہیں۔ وہ زمین کو روشن کرتا ہے،اس کے سنہرے ہاتھ دعا دینے کے لیے پھیلے رہتے ہیں، تمام جانداروں کی طاقت infuseکرتے ہیں اور جنت کی آخری کنارے تک پہنچے رہتے ہیں۔ ایسے ویدک اشلوکوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے جن میں ’’سُریا ‘‘ کا ذکر آیا ہے پھر بھی قدیم زمانے سے ہی سورج کی پوجا عام ہے۔وید کا مقدس ترین منتر ’’گائتری‘‘ جسے ویدوں کی ماں بھی کہا جاتا ہے، کی تلاوت طلوع آفتاب کے وقت عقیدت مند برہمن کرتے ہیں جس میں سورج کو مخاطب کیا جاتا ہے اور اس سے جادُوئی طاقت کے حصول کے لیے دعا مانگی جاتی ہے۔اس منتر کا انگریزی ترجمہ Indian Wisdom',p.20 میں اس طرح درج ہے:

Let us meditate on the excellent glory of the Divine;

May He enlighten (or stimulate ) our understandings.

پورانک زمانے میں سورج کو کشیپ اور آدِتی کا بیٹا کہا گیا۔ اسی زمانے سے یہ مانا جاتا ہے کہ وہ گہراسرخ آدمی ہے جس کی تین آنکھیں اور چار ہاتھ ہیں۔ اس کے دو ہاتھ میں سوسن کے پھول ہوتے ہیں، ایک ہاتھ دعا کے لیے اٹھا رہتا ہے جبکہ چوتھے ہاتھ سے اپنے عقیدت مندوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

سائنسی نظریے سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ زرعی پیداوار کے اعتبار سے سورج بہت اہمیت کا حامل ہے۔کیوں کہ سورج کی روشنی سے دریا میں بخارات پیدا ہوتے ہیں اور وہی بخارات کرّہ زمہریر تک پہنچ کر ابر بن جاتے ہیں اور ہوا ابر کو دور دور تک لے جاتی ہے تب بارش ہوتی ہے اور یہی بارش زمین کو نمو عطا کرتی ہے،نہریں اور چشمے جاری ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بخارات کو سورج کی روشنی پکاتی ہے اور اس سے سونا، چاندی،لوہا،شیشہ، یاقوت، اور ہیرے جیسے اجساد اور معدنیات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ درخت بھی اگتے ہیں اور نباتات پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا چاروں عناصر(زمین،روشنی،ہوا اور پانی) کے وجود میں آنے کی سائنسی اور جغرافیائی وجہ سورج ہی ہے۔ اسی لیے W. J. Wilkingsنے برہم پُران کے حوالے سے سورج کو "Mihira" یعنی "He who waters the earth" " اور Vivaswat یعنی "The Radiant one." کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے قدیم ترین تمدّن میسوپوٹامیا اور مصری تمدّن کی ابتدا سے ہی سورج کو غلہ پیدا کرنے والااورسکھ پہنچانے والا دیوتا سمجھا جاتا تھا۔ اس زمانے میں ’’را ‘‘دیوتا کے نام سے اس کی پوجا کی جاتی تھی۔ آج بھی سورج پوجا کی یہ روایت برقرار ہے۔ بلکہ اسے عوامی بنانے کے لیے اس کا رشتہ یوگ سے جوڑ دیا گیا ہے۔ یوگ ایک صوفیانہ عمل ہے لیکن اس کو سائنس سے بھی جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ سُر یوگ پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جس میں سوامی سُریا جویل کی لکھی ہوئی کتاب بہت اہم ہے۔

سوررج کی پوجا یا سُریا یوگ(مراقبۂ آفتابی) کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے سوامی سُریا جویل، نے کہا ہے کہ انسان کے تمام اعمال اور سرگرمیوں میں سُریا یوگ(مراقبۂ آفتابی) سب سے زیادہ مفید اور فطری عمل ہے۔یہ انسان کے جسم،دل،دماغ،جذبات اور روح کے لیے بہترین غذا فراہم کرتا ہے۔یہ ہمارا رشتہ، ہمارے اندر کی روشن ضمیر طاقتوں کے ساتھ استوار کرتا ہے۔یہ ہمارے اندر زندگی اور زندہ ہونے کا احساس جگاتا ہے۔انسان کے وہ تمام سوالات جس کے جواب وہ ہمیشہ سے ڈھونڈتا رہا ہے اور ترے جیسے اجساد اور معدنیہ کے ز ڈھونڈتا رہے گا مثلاً ہم کون ہیں ؟، ہم یہاں کیوں ہیں ؟، اس کائنات کی حقیقت کیا ہے؟،ان تمام سوالوں کا جواب ہمارے شعور سے نہیں بلکہ تحت شعور سے ملنے لگتا ہے۔یہ تلاش ہمارے ذہن کو سکون بخشتی ہے۔سوامی سُریا جویل نے مراقبۂ آفتابی پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ مراقبہ نہ تو کوئی طریقہ ہے اور نہ کوئی راستہ،یہ تو خود اپنے اندر کے سورج میں ضم ہو جانے کا نام ہے۔ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ وہ عمل ہے جس سے انسانی جسم کے اندر کے پانچوں عناصر(آگ،ہوا، مٹی،پانی اور روح) کا توازن بنا رہتا ہے اور ستاروں کی گردش اور ان سے پیدا ہونے والی تھر تھراہٹ ہمارے اندر کی روشنی کے ہالہ کو پاک رکھتی ہے۔

علامہ اقبال نے اپنی نظم ’’آفتاب‘‘ میں گایتری منتر کے حوالے سے جو لکھا ہے ان میں سے زیادہ تر اشعار سوامی سُریا جویل کے خیالات کی تصدیق کرتے ہیں۔ مثلاً اقبال کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

قائم یہ عنصروں کا تماشا تجھی سے ہے
ہر شئے میں زندگی کا تقاضا تجھی سے ہے

سوامی سُریا جویل نے مزید کہا ہے کہ یہ اپنے خالق سے ملنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔اس کو ہم عبادت اور مراقبہ کا ایک روشن طریقہ مان سکتے ہیں۔ تفصیلی مطالعہ کے لیے رجوع کیجیے : www.suryayog.org) )

ممکن ہے کہ شہاب جعفری کے شعور یا لا شعور میں سورج سے متعلق اساطیری تصور موجود ہو۔شہاب جعفری کا کلام صرف سورج ہی نہیں بلکہ کئی اور اساطیری علامات سے بھرا پڑا ہے۔ممکن ہے اساطیری علامتوں کی طرف جھکاؤ کی وجہ ان کے آبائی وطن کاشی اور سار ناتھ کی وہ پرانی تہذیب ہو جس کے متعلق انہوں نے خود لکھا ہے کہ:

’’وطن معلوم و نا معلوم،تمام و نا تمام کائنات، اس کے ایک چھوٹے سے پسماندہ سیارے پر ایک قدیم ملک ہندوستان، اس کے مشرق میں گنگا کے کنارے، جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے، ایک مقام کاشی اور سار ناتھ میرا وطن ہے جس کی مٹّی سے میرا جسم اور ہواؤ ں سے میرا ذہن بنا ہے۔‘‘

خاطر نشین رہے کہ ہندو مذہب میں کاشی اور سار ناتھ کی خاص اہمیت ہے کیوں کہ شیو پُران کے مطابق کاشی وہ مقام ہے جس کی دھرتی بھگوان شنکر کے ترشول پر ٹکی ہوئی ہے۔مذہبی کتابوں کے مطابق سورج بھگوان، شنکر کے ہی اوتار ہیں۔

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ بڑا فنکار یا ادیب کوئی معمولی انسان نہیں ہوتا بلکہ بیک وقت وہ ہزاروں زمانوں اور تہذیبی منطقوں میں جی رہا ہوتا ہے۔شہاب جعفری بھی انہیں بڑے فنکاروں میں سے ایک ہیں جن کے ذہن میں ہزاروں سال پرانی ہندستانی تہذیب اور فلسفہ موجود ہے اور موجودہ دور کے حالات سے اس کا رشتہ قائم کر کے نئی علامتوں کے ذریعہ نئے پس منظر میں پیش کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔

شہاب جعفری کی پہلی نظم ’’سورج کا شہر ‘‘فکر انگیز اور تحیر خیز ہے۔اس نظم میں ’’سورج‘‘ خوشحالی کی علامت بن جاتا ہے۔ ممکن ہے میسوپوٹامیا اور مصر کی ہزاروں سال پرانی تہذیب شاعر کے ذہن میں موجود ہو جہاں سورج کی پوجا ’’ر ا ‘‘دیوتا کی شکل میں ہوتی تھی کیوں کہ یہ خیر و برکت کا دیوتا تھا۔ نظم کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں :

’’نہیں یہ سورج کے شہر کا آدمی نہیں ہے،
کہ یہ تو مرنے کے بعد فُٹ پاتھ پر پڑا ہے،
یہ لاش ہم سب کی طرح سورج کے ساتھ گردش میں کیوں نہیں ہے
پڑھو تو اس ڈائری میں کیا ہے۔‘‘

سورج سے متعلق صدیوں پرانے اساطیری پس منظر میں شاعر نے آج کی دنیا کو ’’سورج کے شہر‘‘سے تعبیر کیا ہے کیوں کہ سورج طاقت اور عیش و عشرت کی علامت ہے۔ دوسری بات یہ کہ ’’سورج کا شہر‘‘ کہہ کر شاعر نے قاری کے ذہن میں ایک ایسی دنیا کی تصویر ابھارنے کی کوشش کی ہے جس کی مثال جنّت یا اُس جیسی کسی مثالی دنیا سے دی جا سکے جہاں کے ا نسان اِس دنیا میں رہنے والوں کی طرح کمزور اور مجبور نہ ہوں۔ شاعر نے’’سورج کے شہر‘‘ کی اہمیت کو establish کرنے کے لیے فٹ پاتھ پر پڑی ہوئی لاش کو دیکھ کر پہلے مصرعے میں استعجاب کے عالم میں کہا ہے کہ ’’نہیں یہ سورج کے شہر کا آدمی نہیں ہے، ‘‘ کیوں کہ یہ اگر سورج کے شہر کا آدمی ہوتا تو مرنے کے بعد بھی ہم سب کی طرح سورج کے ساتھ گردش میں ہوتا۔ سورج کے ساتھ گردش میں رہنا بھی عیش و عشرت کی علامت ہے۔شاعر کے استعجابی لہجے میں دو باتیں پوشیدہ ہیں۔ پہلی تو یہ کہ یہ دنیا صحیح معنوں میں عشرت گاہ ہے۔ دوسری یہ کہ یہ دنیا اگر عیش و آرام کی جگہ ہے بھی تو صرف ان لوگوں کے لیے جو طاقتور ہیں اور جن کے لیے طرح طرح کے آرام و آسائش کی چیزیں دستیاب ہیں۔ یہاں شاعر سورج کے شہر پر طنز اور ایسے لوگوں کے لیے اظہارِ ہمدردی کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے جو فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرتے ہیں اور فٹ پاتھ پر ہی مر جاتے ہیں۔ وزیر آغا نے بھی ’’سورج کا شہر‘‘ سے یہی دنیا مراد لیا ہے۔

فٹ پاتھ پر پڑے ہوئے انسان کی لاش کی ڈائری کے اوراق پر لکھے ہوئے جملے کی مدد سے شاعر نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ سورج کا یہ شہر جو عالمِ عیش و عشرت کی علامت ہے، اصل میں یہ ایک عام آدمی کے لیے جدو جہد سے بھری ہوئی ہے۔چند مصرعے ملاحظہ ہوں :

’’میں اپنی دنیائے فکرو فن تَج کے آج بن باس میں پڑا ہوں

ضرورتوں میں گھرا ہوا ہوں

عظیم فنکار کا قلم ہو کہ کارخانے کسی کو تخلیقِ حسن کی آرزو نہیں ہے

مقدس آگ ان کے دل کی یوں پیٹ کے جہنّم میں جل رہی ہے

کہ زندگی کی جو قوتیں ہیں، وہ صرف زندہ ہی رہنے میں صَرف ہو رہی ہیں ‘‘

دنیائے باقی سے دنیائے فانی یعنی’’سورج کے شہر‘‘ میں آنے کو شاعر نے ’’بن باس ‘‘سے تعبیر کیا ہے۔’’بن باس‘‘ جس طرح پانڈوؤں اور رام کے لیے جدوجہدسے عبارت ہے۔ اسی طرح یہ دنیا بھی ایک عام انسان کے لیے صعوبتوں سے بھری ہوئی ہے۔ تیسرے مصرعے میں شاعر نے دنیا کی مصیبتوں کی زیادتی سے ہونے والے اثرات کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح اس کی وجہ سے ایک فنکار کا قلم تخلیقِ حسن بھول گیا ہے۔ چوتھے اور پانچویں مصرعے میں شاعر نے دنیا کی مصیبتوں کی آخری حد یعنی بھوک کی آگ پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ انسان کے دل کی آگ جو تخلیقِ حسن کے لیے انسان کی طاقت ہے، اب بھوک کی شکل میں انسان کے پیٹ میں منتقل ہو گئی ہے جوانسان کے لیے تخلیقِ حسن میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہاں پیٹ کی آگ کی طرف اشارہ کر کے شاعر نے ہزاروں غریبوں کی بے بسی کی طرف قاری کو متوجہ کیا ہے اور سورج کے شہر پر طنز کیا ہے۔ اسلام بھی کہتا ہے کہ غربت میں ایمان کے کمزور ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ شاعر نے اس کے لیے دنیا کے موجودہ سیاسی نظام کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔’’مقدس آگ‘‘ کہہ کر شاعر نے ہندو مذہب کے اس تصوّر کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آگ ’’پَوِ تر‘‘ ہوتی ہے جسے پوجا کی اشیاء میں اہم مانا جا تا ہے۔

جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ شاعر نے اس دنیا کو سورج کے شہر سے تعبیر کیا ہے کیوں کہ سورج بھی اپنی تجدید کے لیے ہمیشہ گردش میں رہتا ہے۔ دنیا بھی ترقّی کی بلندیوں کو چھونے کے لیے ہمہ وقت چلتی رہتی ہے اور اپنے ساتھ تمام انسانو ں کو بھی چلاتی رہتی ہے۔چند مصرعے ملاحظہ ہوں :

’’یہ شہر سورج کا شہر ہے،اِ س کے روز و شب کا پتہ نہیں کچھ

نہ آج تک وقت اور تاریخ کا مجھے علم ہو سکا ہے

کہ میرے احساس میں کوئی آج ہے نہ کل

اور یہ رات ہے یا سیاہ سورج ؟‘‘

غروب ہو کر بھی آسمان و زمیں سے پیہم گزر رہا ہے

ان مصرعوں میں شاعر نے تیز رفتار دنیا کی چکا چوند میں کھوئے ہوئے انسان کے تاثرات و جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دنیا میں زندگی اس قدر مصروف ہے کہ نہ دن کا احساس ہوتا ہے اور نہ رات کا۔ لگتا ہے کہ وقت ٹھہر گیا ہے۔ چوتھے مصرعے میں شاعر نے رات کو سیاہ سورج سے تعبیر کیا ہے کیوں کہ راتیں بھی دن کی مانند سورج کے ساتھ ساتھ متحرک ہیں۔ دنیا کا کاروبار رات میں بھی ویسا ہی چلتا ہے جیساکہ دن میں چلتا ہے۔رات کی تاریکی میں ظلم واستبداد کے دیو کو پوری آزادی مل جاتی ہے۔اسی لیے شاعر نے رات کو سیاہ سورج سے تعبیر کیا ہے۔ اس کا ایک سائنسی پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ سورج کبھی غروب نہیں ہو تا۔ وہ اپنے محور پر ہمہ وقت گردش کرتا رہتا ہے۔اس لیے شاعر نے پانچویں مصرعے میں کہا ہے کہ ’’غروب ہو کر بھی آسمان و زمیں سے پیہم گزر رہا ہے۔‘‘

ایک اور نظم ’’گنہگار فرشتے‘‘ میں بھی شاعر نے سورج کو ’’اندھیری رات کا سوررج‘‘ کہا ہے جسے ظلم و ستم کے دیو سے تعبیر کرنے کے علاوہ اسے ایک نئی علامت کے طور پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔اس نظم کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں :

اندھیری رات کا سورج یہ ساغرِ مے ہے

فروغِ نشہ میں کتنی حسین ہے دنیا

(سُبک سی ایک کھلونے کی طرح نازک سی

نگاہ بھر کے بھی دیکھیں تو چور ہو جائے)

یہ جیسے مائلِ پرواز ہونے والی ہو

ہمیں اڑائے لیے جائے گی کہیں سے کہیں

دراصل انسان تو گناہوں کا پتلا ہے لیکن شراب پینے کے بعد وہ فرشتے کی مانند ہو جاتا ہے لیکن شاعر نے ’’گنہگار فرشتے ‘‘ میں احتیاط کے طور پر فرشتہ سے پہلے گنہگار لفظ کا اضافہ کر دیا ہے لیکن اس لفظ میں طنز کا تاثر بھی موجود ہے۔ شاعر نے اس نظم میں ’’ساغرِ مے‘‘ کو اندھیری رات کا سورج کہا ہے جو استعارہ بالکنایہ ہے۔جس طرح سورج کا کام ہے تاریکی دور کرنا اور روشنی پھیلانا اسی طرح ’’ساغرِ مے‘‘ بھی دل کی تاریکی کو ختم کر دیتا ہے اور انسان کو ایک عجیب و غریب دنیا میں لے جاتا ہے جو بے حد حسین اور نازک ہے۔اس دنیا میں انسان اپنے آپ کو ایک معصوم بچے کی طرح محسوس کرتا ہے اور آرزوؤں کے جھولے میں بیٹھ کر چاند تاروں اور جنت کی سیرکرتا ہے۔ پانچویں اور چھٹے مصرعوں میں حد درجہ مبالغہ ہونے سے نظم میں Fantasy کا انداز پیدا ہو گیا ہے۔

متذکرہ دونوں نظموں میں ’’سیاہ سورج ‘‘ اور ’’اندھیری رات کا سورج‘‘ سے ذہن varuna دیوتاکی طرف بھی منتقل ہو جاتا ہے جس کے متعلق W.J. Wilkings نے ہندو مائتھولوجی میں لکھا ہے کہ:

The idea of the older commentators was that Mitra represented and ruled over the day , whilst Varuna was ruler of the night."Varuna is some times visible to the gaze of his worshipers; he dwells in a house having a thousand doors, so that he is ever accessible to men. He is said to have good eyesight, for he knows what goes on in the hearts of men."

فارسی اور اردو شاعری میں انسان کو ایک ذرّہ کہا گیا ہے اور اسے مجبور اور ناتواں بتایا گیا ہے لیکن علامہ اقبال نے مردِ مومن کا تصّور پیش کر کے انسان کے احساسِ کمتری کو دُور کیا۔ شہاب جعفری کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ انسان اسی خدا کا ایک ذرّہ ہے۔اسی لیے انہوں نے اپنی بعض نظموں میں سورج کو خدا( God Almighty) سے تعبیر کیا ہے اور انسان کو اسی سورج کا ذرّہ قرار دیا ہے۔ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے مطابق سورج کو ’’برہما‘‘ کی علامت مانا گیا ہے، سورج اس کائنات کی تخلیق کرتا ہے، اسے اپنے اختیار میں رکھتا ہے اور اسے تباہ بھی کرتا ہے۔رِ گ وید میں سورج کو تمام دیوتاؤ ں کی آنکھ کہا گیا ہے۔ اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ سور ج ہی برہما ہے،شہاب جعفری کی ایک نظم ’’ذرّے کی موت‘‘ کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے:

اپنے سورج سے بچھڑا ہوا تارہ ہوں
اپنی فطرت سے بکھرا ہوا پا رہ ہوں

اسی نظم ’’ذرّے کی موت‘‘ میں ایک جگہ انسان کو سیارہ سے تعبیر کیا ہے جو سورج سے ٹوٹ کر الگ ہو گیا ہے۔ جس سے نظامِ کشش کا توازن برقرار نہیں رہنے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔انسان کو ایک سیارہ قرار دینے سے جہاں انسان کی عظمت اور اس کے طاقتور وجود کا احساس ہوتا ہے وہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شہاب جعفری سائنسی حقیقت سے بھی واقف ہیں۔

میں نظامِ کشش سے جدا ہو گیا
چاند سے کس قدر فاصلہ ہو گیا

’’چاند سے کس قدر فاصلہ ہو گیا ہے‘‘ کہہ کر شاعر نے نہ صرف نظامِ کشش کے توازن کے بگڑ جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے بلکہ قرآن شریف میں شق ا لقمر کے واقعہ کی طرف بھی قاری کے ذہن کو منتقل کر دیا ہے۔

علمِ نجوم میں بھی سورج کو تمام سیاروں کا راجہ کہا جاتا ہے۔علمِ نجوم کے مطابق نو سیارے ہیں اور ان سیاروں کی گردش ہی دنیا میں انسان کی تقدیر بناتی اور بگاڑتی ہے۔ان سیاروں میں سورج کو خاص اہمیت حاصل ہے۔کہا جاتا ہے کہ تمام سیارے سورج سے ہی طاقت حاصل کرتے ہیں اور نفع و نقصان پہنچاتے ہیں۔ برہم پوران کے مطابق سورج کے بارہ نام ہیں جن میں W.J.Wilkins کے مطابق ایک نامGrahapati یعنی"The Lord of the stars." بھی ہے۔

شہاب جعفری کو انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا احساس شدید طور پر ہے اس لیے وہ انسان کی تو انائی اور اس کی وسعت کو Atom کی صورت میں دیکھتے ہیں جو Explode ہو نے کا مجاز رکھتا ہے اور اپنی آگ سے کسی بھی چیز کو پگھلا سکتا ہے۔اس نظم کے چند بند ملاحظہ کیجیے:

اپنے اندر کہاں تک سمٹ جاؤ ں گا

اور اُوپر اُٹھوں گا تو پھٹ جاؤ ں گا

روح بجلی سی بن کر نکل جائے گی

دیکھ زنجیرِ آفاق گَل جائے گی

دیکھ ہستی کی بنیاد ہل جائے گی

اور زمیں جا کے سورج سے مل جائے گی

شاعر نے یہاں زمین کو سورج کا حصہ قرار دے کر انسان کو ایک سیارے سے تعبیر کیا ہے۔ شاعر نے یہ کہہ کر کہ ’’اور زمیں جا کے سورج سے مل جائے گی‘‘ جہاں اسلام کے اس نظریے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہر شے اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے وہیں سائنس کے اس نظریے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ سورج، چاند اور زمین قوّتِ کشش کی بدولت اپنی اپنی جگہ ٹکی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ اُس جغرافیائی عمل کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو لاکھوں سال پہلے عمل میں آیا تھا۔ جس کی بدولت سورج سے آگ کا ایک گولہ الگ ہو گیا تھا جو مدّتوں بعد ٹھنڈا ہوا اور ٹھنڈا ہونے کے بعد آہستہ آہستہ وہاں ’’کاربن‘‘ پیدا ہوا اور پھر بعد میں یہاں کوئی جاندار چیز پیدا ہوئی۔اب اسی ٹھنڈی آ گ کے گولے کو زمین کہا جاتا ہے۔

شاعر نے اپنی کئی نظموں میں انسان کو خدا کا جز قرار دے کر اسے نور سے تعبیر کیا ہے۔ ’’برہم پران‘‘ کے مطابق بھی سورج کو Bhaskera یعنی "The Creator of light." کہا جاتا ہے۔ نور علم و آگہی کی بھی علامت ہے۔انسان کو خدا نے جب اس دنیا میں بھیجا تو اس کے نور سے یہ دنیا چمک اٹھی اور ارض و سما روشن ہو گئے۔ گیارہ مصرعوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی آزاد نظم ’’میں ‘‘اسی حقیقت کا اشاریہ ہے۔ چند مصرعے ملاحظہ ہوں :

کس قدر روشن ہیں اب ارض و سما

نور ہی نور آسماں تا آسماں

میرے اندر ڈوبتے چڑھتے ہوئے سورج کئی

جسم میرا روشنی ہی روشنی

پاؤں میرے نور کے پاتال میں

ہاتھ میرے جگمگاتے آسمانوں کو سنبھالے

سر مرا کاندھوں پہ اک سورج،

کہ نا دیدہ خلاؤ ں سے پرے ابھرا ہوا

اور زمیں کے روز و شب سے چھوٹ کر

آگہی کی تیز رو کرنوں پہ میں اڑتا ہوا

چار جانب اک سہانی تیرگی کی کھوج میں نکلا ہوا

اس نظم میں حد درجہ مبالغہ آمیز فقروں کو مصرعوں کے دروبست میں ڈھالا گیا ہے جس سے ان میں تحیر یا Fantasy پیدا ہو گئی ہے۔اس کے علاوہ نظم میں افعال کے مقابلے، اسمائ کا استعمال کثرت سے کیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا کہ شاعر نے زمینی حقیقت کے بجائے آسمانی باتیں کی ہیں۔ لہٰذا قاری کا ذہن تصوف کی طرف لا محالہ منتقل ہو جاتا ہے۔ اس لیے’ نور‘ اور ‘ سورج‘ کی علامتوں کی تلاش تصوف یا اسلامی فلسفے کی روشنی میں کرنا مناسب ہو گا۔واضح رہے کہ خدا سراپانور ہے اور نور کا سرچشمہ بھی۔ جبکہ انسان مٹی سے بنا ہے لیکن خدا نے اپنے نور کا پرتو انسان پر ڈال کر اسے بھی نور سے مالا مال کر دیا اس لیے انسان کے اندر وہ تمام خوبیاں پیدا ہو گئیں جس کی بدولت وہ تسخیرِ کائنات کی قدرت رکھتا ہے۔سورج بھی نور کا ایک گولہ ہے شاید اسی لیے سورج کو خدا مانا جا تا ہے۔تیسرے مصرعے میں شاعر نے ’’میرے اندر ڈوبتے چڑھتے ہوئے سورج کئی‘‘ کہہ کر اور چوتھے، پانچویں اور چھٹے مصرعے میں یہ کہ کر کہ ’’جسم میرا روشنی ہی روشنی‘‘،’’پانو میرے نور کے پاتال میں‘‘ اور ’’ہاتھ میرے جگمگاتے آسمانوں کو سمبھالے‘‘اور پھر ساتویں مصرعے میں ٫سر٬ کو سورج سے تشبیہ دے کر جہاں قاری کو تحیر یاFantasy کی دنیا میں لے جاتا ہے وہیں اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ انسان علم و آگہی سے پوری طرح معمور ہے اور اب وہ اس لائق ہے کہ ’’چار جانب اک سہانی تیرگی کی کھوج‘‘ کر سکے۔

ا ٓزاد نظم میں قافیے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے پھر بھی اس نظم میں External اور Internal قافیے(Rhymes) موجود ہیں۔ دراصل اردو ایک اشتقاقی زبان(Inflectional Language) ہے جس کی وجہ سے اس زبان کے جملوں یا مصرعوں میں خود بخود قافیے آ جاتے ہیں۔ زیرِ بحث نظم میں بھی قافیے غیر شعوری طور پر آئے ہیں لیکن ان قافیوں کی وجہ سے نظم کے مصرعوں کی ساخت پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے بلکہ External اور Internal قافیوں کی تکرار سے مصرعوں میں موسیقیت پیدا ہو گئی ہے اور نظم گنگنا اٹھی ہے۔

رابندر ناتھ ٹیگور کی تخلیقات میں بھی روشنی کا استعمال بہت ہوا ہے۔روشنی ان کے یہاں علم و آگہی کی علامت ہے۔ وہ اپنے اِدراک و آگہی کی پختگی اور تصوّر کی بلند پروازی کے لیے دعا مانگتے تھے۔

"They stand with uplifted eyes thirsty after light, lead them to light My Lord."

(The Times of India, The speaking Tree) رابندر ناتھ ٹیگور کے لیے روشنی خوشی کا سرچشمہ بھی ہے۔ ان کی نظم کا یہ ٹکڑا ملاحظہ کیجئے۔

Light my light, the world filling light, the eye kissing light, heart sweetening light." " (The Times of India, The speaking Tree)

د راصل رابندر ناتھ ٹیگور کے فلسفے کا محرک بھی سورج ہی ہے۔ان کے یہاں روحانی حقیقت کا ادراک سورج کی شعاعوں کے ذریعہ ہوا ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ:

" One day while I stood watching at early dawn the Sun sending out its rays from behind the trees, I suddenly felt as if some ancient mist had in a moment lifted from my sight and the morning light on the face of the world revealed an inner radiance of joy. The invisible screen of the common place was removed from all things and all of mankind and this ultimate significance was intensified in my mind and this the definition of beauty."

(The Times of India, Soma Chakravarty , speaking tree)

علامہ اقبال نے اپنی ایک نظم ’’آفتاب‘‘(ترجمہ گایتری منتر)میں خدا کے نور کی وضاحت اس طرح کی ہے:

وہ آفتاب جس سے زمانے میں نور ہے

دل ہے خرد ہے روحِ رواں ہے شعور ہے

اے آفتاب ہم کو ضیائے شعور دے

چشمِ خرد کو اپنی تجلی سے نور دے

نے ابتدا کوئی، نہ کوئی انتہا تری

آزادِ قیدِ اول و آخر ضیا تری

شہاب جعفری کی ایک دوسری نظم ’’خونیں صدیاں ‘‘بھی قابلِ ذکر ہے۔تین بندوں پر مشتمل یہ ایک پابند نظم ہے جس کے پہلے اور دوسرے بند میں شاعر صدیوں پر پھیلے ماضی کے تمام بحرانی اور خوں ریز منظر نامے پر غور کرتا ہے اور حال سے اس کا مقابلہ کرتا ہے تو پاتا ہے کہ آج بھی سب کچھ ویسا ہی ہے۔ نہ وقت بدلا، نہ سوچنے کا ڈھنگ بدلا اور نہ ’’من و تو‘‘ کے جھگڑے بدلے۔آج بھی خوف و ہراس پیدا کرنے والے حالات موجود ہیں۔ تیسرے بند میں شاعر نے بتا یا ہے کہ ان تمام حالات کو سورج دیکھ رہا ہے لیکن اس کے پاس بھی اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔نظم کا تیسرا بند ملاحظہ کیجیے جس میں سورج کی علامت قابلِ غور ہے:

سوچتا سورج دیکھ رہا ہے رنگ بدلتی دھول

دشت میں تھی تو بگولہ تھی اور شہر میں ہے تو فصیل

ہر مقتل میں ہر انساں اک نیزہ ہے اک ڈھال

ہر اک کا مقتول بھی قاتل،قاتل بھی مقتول

انسانیت خود اک سازش اس کا کون کفیل؟

دھرتی تجھ کو کتنا لہو دیں ہم دھرتی کے لال

اس بند کے پہلے مصرعے میں جس طرح لفظ ’’سورج ‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج دراصل خدا ہے جو سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ اسی لیے بر ہم پُران میں بھی سورج کو’’Karmasakshi ‘‘ یعنی "The witness of (men's) works." کہا گیا ہے۔ لیکن آخری مصرعے ’’دھرتی تجھ کو کتنا لہو دیں ہم دھرتی کے لال ‘‘میں اس بات کی وضاحت ہے کہ ’’سورج‘‘ خدا نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو انسانیت کی بقا کے لیے شہید ہو جاتے ہیں یا خود شاعر ہے جو استعجاب کے عالم میں یہ دیکھ رہا ہے کہ کس طرح موجودہ صورتِ حال میں آدمیت حیوانیت میں تبدیل ہو گئی ہے۔

شاعر نے نظم ’’آخری نسل ‘‘میں آخری نسل کو اندھیرے اور نئی نسل کو سورج سے تعبیر کیا ہے۔ شاعر نے گزشتہ کے مقابلے میں آنے والے کل کو زیادہ روشن اور تابناک بتایا ہے۔ صوفیوں کا بھی خیال ہے کہ یہ دنیا پل پل بدلتی رہتی ہے اور بہتر سے بہتر ہوتی جاتی ہے۔غالب نے بھی اپنے ایک شعر کہا ہے :

آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز

پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

شہاب جعفری کی نظم ’’آخری نسل‘‘ کے چند مصرعے ملاحظہ کیجیے:

رات کی بے حس تنہا بیلیں

آنکھ سے اوجھل دیواروں کا سہارا پا کر

چاروں دشا میں چپکے چپکے پھیل رہی ہیں

صبح کو جب سورج نکلے گا

تازہ نور کی بارش میں مرجھا جائیں گی

’’رات کی بے حس تنہا بیلیں ‘‘ تہذیبی زوال کا استعارہ ہے جو ’’چاروں دشا میں چپکے چپکے پھیل رہا ہے‘‘۔ دوسرے مصرعے میں ’’صبح کو جب سورج نکلے گا‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج، استعارہ بالکنایہ ہے تجدیدِ تہذیب کا اور ’’تازہ نور کی بارش‘‘ علم کا استعارہ بالکنایہ ہے۔ علم کے سر چشمے سے نکلی ہوئی علم کی روشنی جہالت کی تمام تاریکیوں کو ختم کر دیتی ہے۔

سائنس کے مطابق تو سورج، چاند اور زمین سیارے ہیں اور یہ تینوں اپنے اپنے محور پر گردش کرتے رہتے ہیں۔ پچھلے سطور میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ دراصل زمین سورج کے چاروں طرف گردش کرتی ہے۔ گردش کے دوران زمین کا جو حصہ سورج کے سامنے آتا ہے وہاں دن ہوتا ہے اور جو حصہ سامنے نہیں آتا ہے وہاں رات ہوتی ہے۔ سائنس کی یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے لیکن سائنسی حقیقتوں تک انسانی ذہن کی رسائی پہلے قصے اور کہانیوں کے ذریعہ ہی ہوتی تھی اور قصے کہانیوں کا سرچشمہ مِتھ اور اساطیر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سورج، چاند، رات، صبح، طلوع آفتاب اور غروبِ آفتاب سے متعلق متعدد اساطیری کہانیاں مشہور ہیں جن کی طرف شاعر نے اپنی ایک نظم’’پسِ پردہ‘‘ میں قاری کے ذہن کو منتقل کیا ہے، ساتھ ہی سو رج کے غروب ہونے کے بعد رات کے آغوش میں چلے جانے سے لے کر طلوع ہونے اور پھر صبح سے شام تک گردش میں رہنے تک کے عمل کو پیش کر کے اس سے زندگی کے نشیب و فراز، تجدید زندگی اور تجدید تہذیب کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ چند مصرعے ملاحظہ ہوں :

سورج کے پجاریوں نے دیکھا

رات اپنی اداسیوں کے بدلے

سورج کو گہن میں لے کے شاداں

کس شان سے آسماں سے اتری

رات اتنی سیاہ، سرد، خاموش

بے حس، بے رحم، بے اماں ہے

تصویرِ عذابِ جاوداں ہے

سرچشمہ نور کے نگہباں

لرزاں ہیں کھڑے ہیں دست بستہ

اقرارِ گنہ کی خامشی کے

خنجر نے زباں تراش دی ہے

تہذیبِ بشر کی لوحِ عصیاں

ہر بوند لہو کی، پڑھ رہی ہے

شاعر نے سورج سے متعلق جس اساطیری کہانی کی طرف اشارہ کیا ہے وہ بے حد دلچسپ ہے۔ دیومالائی تصور کے مطابق سورج کا اُوشا اور رات سے کیا رشتہ ہے اور سورج دن بھر رات کا تعاقب کیوں کرتا ہے اور وہ رات کی آغوش میں آ کر کیسے اپنے وجود کو ختم کر لیتا ہے۔پھر صبح میں کیسے رات سے اپنا دامن چھڑا کر گردش پر مامور ہو جاتا ہے۔اس کی وضاحت ڈاکٹر وزیر آغا نے ان لفظوں میں کی ہے:

’’رِگ وید کے بعض اشلوکوں میں اوشا کو گائے سے تشبیہ دی گئی ہے اور سور ج کو اس کا بچھڑا کہا گیا ہے۔اسی طرح بعض اوقات اوشا کو سورج کی محبوبہ قرار دیا گیا ہے اورسورج کی آوارہ خرامی اس محبوبہ کی تلاش کے مترادف قرار پائی ہے۔بات یہ کہ اس تمثیل میں دراصل دو کردار ہی ابھرے ہیں ایک سورج کا کردار جس کا منصب عاشق ہے۔دوسرا رات کا کردار جو محبوبہ ہے لیکن جس کے تین واضح روپ ہیں یعنی شام،رات اور صبح شام عورت کا وہ روپ ہے جب وہ نگلنے والی ماں کا کردار ادا کرتی ہے۔رات وہ جب اس کی حیثیت ایک حاملہ عورت کی سی ہوتی ہے اور خون آلود صبح جب وہ بچّے کی تخلیق کرتی ہے۔چنانچہ سورج بیک وقت اس کا محبوب بھی ہے اور اس کا فرزند بھی۔اسی طرح سورج کے لیے رات بیک وقت محبوبہ بھی ہے اور ماں بھی۔جب سورج علی الصبح رات سے اپنا دامن چھڑا کر باہر کو لپکتا ہے تو اس کی حیثیت آوارہ خرام خانہ بدوش کی سی ہوتی ہے جو کسی نئی منزل کی تلاش میں ہے لیکن منزل،ماں کے روپ میں خود اس کی ذات میں بھی پوشیدہ ہے۔اس لیے وہ اس کی تلاش میں سرگرداں شام کے سمے اسی اوشا سے دوچار ہوتا ہے جس سے کبھی اپنا دامن چھڑایا تھا۔اس کے بعد جنسی اتصال کا مرحلہ سامنے آتا ہے۔سورج(ریشم کے نر کیڑے کی طرح )فوراً مر جاتا ہے لیکن اس جنسی ملاپ کے ذریعہ اپنی تجدید کر کے اگلی صبح ایک نئے سورج کی صورت میں دوبارہ طلوع ہوتا ہے۔یہ عمل بیج کے زمین میں جانے اور یوں اپنی تجدید کرنے کی صورت سے مماثل بھی ہے اور اسی لیے یہ ساری تمثیل زرعی معیشت سے پوری طرح وابستہ دکھائی دیتی ہے۔‘‘

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ شہاب جعفری کی یہ نظم بیانیہ ہے۔واضح رہے کہ بیانیہ بمعنی Narrative کا اطلاق عام طور پر فکشن کی نثری اصناف پر ہوتا ہے لیکن اس کا اطلاق شعری اصناف پر بھی کیا جا سکتا ہے اگر بیانیہ شعری اصناف میں پوری طرح تحلیل ہو جائے۔شہاب جعفری کی نظم کے زیرِ بحث مصرعے پھر سے ملاحظہ کیجیے کہ کس طرح دورانِ گردش سورج کے تحرک واقعہ در واقعہ کی کیفیت کے ساتھ کہانی اندر ہی اندر چل رہی ہے اور اپنی داخلی ساخت میں نظم خود بخود بنتی جا رہی ہے۔ رات کو گہن میں لے کے شاداں، کس شان سے آسماں سے اتری،رات اتنی سیاہ، سرد،خاموش، بے حس، بے اماں ہے،تصویرِ عذابِ جاوداں ہے، وغیرہ مصرعوں میں جس طرح شاعر نے رمزیت پیدا کی ہے اور بیانیہ کو تحلیل کر دیا ہے یہ شاعر کا کمال ہے۔پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنے ایک مضمون ’’جدید نظم کی شعریات اور بیانیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ:

’’جہاں وقت کے تحرک کی کیفیت ہو گی،کہانی اندر ہی اندر چلتی رہے گی۔ یہی بیانیہ کا بیج ہے جس سے داخلی ساخت میں نظم قائم ہوتی ہے،اور نظم کے حسن و لطافت اور تاثیر میں جس کے شعری تفاعل کو نظر انداز نہیں کر سکتے‘‘۔

(اردو نظم ۱۹۶۰ کے بعد،ص- ۳۰- ۳۱)

شاعر نے اپنی ایک نظم ’’ماحصل‘‘ میں سورج کو ایک نئی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔یہ چھوٹی بحر کی نظم ہے جس میں دو بند ہیں۔ پہلے بند میں شاعر نے شام کا منظر پیش کیا ہے لیکن شام کو حسین بنا کر نہیں بلکہ موت کا استعارہ اور دن کو زندگی کا استعارہ بنا کر پیش کیا ہے۔ دوسرے بند میں شاعر نے روزِ قیامت کا سماں پیش کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ مرنے کے بعد افراتفری کے ماحول میں کوئی کسی کو نہیں پہچانتا۔سبھی اجنبی لگتے ہیں۔ چند مصرعے ملاحظہ کیجئے:

معلوم کسے اِن جسموں کی

آوارہ مکیں روحوں کا پتا؟

سب اجنبی کون کسے جانے؟

یاں کس نے کس کو پیار دیا؟

سب اپنے پرائے، میں اور تم

احساس کی تیز آندھی کی صدا

ہنگاموں میں ڈھونڈیں گے کل پھر

چھوٹا ہوا دامن ساتھی کا

شمشان نگر کے رستے میں

پھر کل جب سورج نکلے گا

نویں مصرعے میں ’’شمشان نگر ‘‘ روزِ محشر کا استعارہ ہے اور دسویں مصرعے میں ’’کل جب سورج نکلے گا‘‘ حساب کتاب کی آزمائشوں سے گذر کر اچھے وقت آنے کی علامت ہے۔قیامت کے دن اعمال کے حساب کتاب کے بعد خدا کے نیک بندوں کے جنت میں داخل ہونے کو شاعر نے سورج نکلنے سے تعبیر کیا ہے۔ اس نظم کا ایک دوسرا پہلو بھی ہو سکتا ہے۔ شمشان نگر سے مراد ایسی دنیا بھی ہو سکتی ہے جہاں کی تہذیب زوال پذیر ہو۔ اور سورج کا نکلنا تجدید تہذیب کی علامت ہے۔

’’سورج کا زوال‘‘ چھوٹی بحر میں ایک مکالماتی نظم ہے۔ شام کے وجود میں آنے کی وجہ ہے’’سورج کا زوال‘‘۔ شاعر نے اپنی اکثر نظموں میں انسان کو سورج کا ایک حصہ قرار دیا ہے۔اس لحاظ سے شام اور انسان دونوں کا سورج سے گہرا رشتہ ہے۔اسی لیے شاعر نے اس نظم میں شام سے مخاطب ہو کر اس کے اوصاف بیان کیے پھر شام سے خود کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی صفات بیان کی ہیں جس سے انسان کی صفات پر روشنی پڑتی ہے۔اس نظم کے یہ مصرعے ملاحظہ کیجیے:

اے رنگ برنگی شامو

کیوں دامن میرا تھامو

تم آوازوں کی بستی

میں سنّاٹوں کا صحرا

تم بہتے وقت کی موجیں

پل بھر میں گزر جاؤ گی

میں سوچ کا پیاسا پتھر

آپ اپنی ہی گہرائی میں

ڈوبا ر ہ جا و ں گا

پہلے مصرعے میں شاعر نے شام کو رنگین کہا کیوں کہ شفق رنگ جب چاروں طرف پھیلتا ہے تو شامیں رنگین لگنے لکتی ہیں۔ اس کی رنگینی سے متاثر ہو کر شاعر اپنے آپ کو کمتر محسوس کرتا ہے اس لیے دوسرے مصرعے میں کہتا ہے کہ ’’کیوں دامن میرا تھامو‘‘ اس میں طنز کا بھی پہلو ہے۔تیسرے مصرعے میں شام کو آواز کی بستی کہا اور پانچویں مصرعے میں اسے بہتے وقت کی موجوں سے تعبیر کیا۔ پھر اس کی مناسبت سے چھٹے مصرعے میں یہ کہہ کر کہ تم ’’پل بھر میں گذر جاؤ گی‘‘،شام کی اہمیت کم کر دی ہے۔لیکن چوتھے مصرعے میں خود کو سنّاٹوں کے صحراسے تعبیر کی ہے اور ساتویں، آٹھویں اور نویں مصرعے میں یہ کہہ کر کہ ’’میں سوچ کا پیا سا پتھر،آپ اپنی گہرائی میں، ڈوبا ہوا رہ جاؤ ں گا ‘‘ نہ خود اپنی بلکہ تمام انسانوں کی اہمیت بڑھا دی ہے۔صرف اتنا ہی نہیں بعد کے مصرعوں میں انسان کی عظمت کو اور بھی بہتر طریقے سے ابھارا ہے۔چند مصرعے ملاحظہ ہوں :

تم لُکتی چھپتی چھایا

آکاش کے اجلے تن میں

میں ٹوٹ کے گرتا سورج

دھرتی کے اندھیرے بن میں

پہلے اور دوسرے مصرعے میں شاعر نے شام کو آکاش کے تن میں لُکتی چھپتی چھایا کہہ کر اس کے وجود کو ادنیٰ قرار دیا لیکن تیسرے مصرعے میں خود کو ٹوٹ کر گرتا ہوا سورج سے تعبیر کر کے انسان کی عظمت کو بڑھا دیا۔ یہاں سورج خدا کا اور انسان، خدا کے ذرّے کا استعارہ ہے۔آخری بند میں اس دنیا کو ’’اندھیرے بن‘‘ سے تعبیر کر کے شاعر نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ دنیا انسان کے شایانِ شان نہیں ہے۔ یہاں ٹوٹ کر گرتا سورج ہماری تہذیب کی شکست و ریخت کی بھی علامت ہے۔

نظم ’’شہرِ انا ‘‘ عبارت ہے اس دنیا سے جہاں کے ہر فرد میں حد درجہ موجود ہے۔انا کو اچھے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن اگر انا حد سے زیادہ ہو تو غرور کہلاتا ہے۔ اس نظم کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں :

یہ تیز دھوپ یہ کاندھوں پہ جاگتا سورج

زمیں بلند ہے اتنی کہ آسماں کی رقیب

وہ روشنی ہے، وہ بیداریاں کہ سائے نہ خواب

بس ایک ہوش بس اک آگہی بس اک احساس

اور ان کے نور سے جلتے بدن، پگھلتے بدن

پہلے مصرعے میں ’’جاگتا سورج‘‘ انا کی علامت ہے۔دوسرے مصرعے میں انا کی زیادتی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔تیسرے مصرعے میں جاگتا سورج کی رعایت سے روشنی اور بیداریاں کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو انا کا جوہر ہیں لیکن ان کی زیادتی بھی اچھی نہیں ہوتی ہے۔ روشنی اور بیداریوں کے ساتھ ساتھ سائے اور خواب بھی ضروری ہیں۔

نظم ’’شام اور کھنڈر‘‘ میں بھی سورج کو ایک علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔چند مصرعے ملاحظہ کیجئے:

یہ شام پھر آج یوں ہے جیسے

ہزاروں سورج

مر ا ترا درد لے کے سب ایک ساتھ ڈوبے ہوں

سارے سورج

شام اور کھنڈر میں بہت مماثلت ہے۔جب کوئی شاندار عمارت اپنے تمام آب و تاب اور رنگ و روپ کھو دیتی ہے تو کھنڈر بن جاتی ہے۔اسی طرح صبح اور دن جب اپنی روشنی اور چمک کھو دیتے ہیں تو شام ہو جا تی ہے۔اس نظم میں شام اور کھنڈر ٹوٹتی بکھرتی تہذیب کی علامت ہیں۔ اور ڈوبتا ہوا سورج تہذیب کی زوال کی علامت۔

شہاب جعفری نے اپنی نظموں کے علاوہ غزلوں کے اشعار اور متفرق اشعار میں بھی سورج کو بطور علامت استعمال کیا ہے۔مثلاً یہ ا شعار :

چڑھتا سورج ہوں سرابوں سے گذرنا ہے مجھے
آج دریا بھی جو پی جاؤں تو سیراب نہیں

چڑھتا سورج محاورہ ہے لیکن یہاں یہ ان لوگوں کی علامت ہے جو دولت اور طاقت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسے لوگ طاقت اور دولت کی بھوک میں کچھ بھی کر گذرتے ہیں۔ شاعر کا خیال ہے کہ یہ تمام چیزیں آنکھوں کا دھوکا ہیں۔ انہیں حاصل کر لینے کے بعد بھی انسان کو سکون نہیں ملتا۔

کتنے سورج انہیں آنکھوں سے پرے ڈوب گئے
وہ بیا باں ہیں ان اشکوں میں کہ پایاب نہیں

اس شعر میں سورج ایسے طاقتور بادشاہوں اور حاکموں کی علامت ہے جو اس دنیا سے گذر چکے ہیں اور آج ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہے۔آج کے دور میں سورج، جارج بُش کی علامت ہے جو پچھلے تمام ظالم بادشاہوں کی طرح خاک میں مٹ جائے گا۔

دشت در دشت مرے سر سے گذرتا سورج
لے کے ٹوٹا ہے یہی نورِ فلک تاب مجھے

اس شعر میں ’’نورِ فلک تاب ‘‘سورج کا استعارہ ہے اور سورج خدا کی علامت ہے۔ مبالغے کی وجہ سے اس میں Fantasy کا انداز پیدا ہو گیا ہے۔

چڑھتے سورج کے پجاری وہی نکلے جو شہاب

کرتے تھے تذکرہ صدق و صفا ہم سے بہت

اس شعر میں چڑھتے سورج دولت اور طاقت کی، جبکہ پجاری، دولت اور طاقت حاصل کرنے والوں کی علامت ہے۔شاعر نے اس شعر میں ایسے لوگوں پر طنز بھی کیا ہے جو بظاہر سچے انسان ہونے کا ڈھونگ کرتے ہیں لیکن اندر سے دولت اور طاقت کے حریص ہوتے ہیں۔

شام بھری اس دنیا کو آباد کریں گے ستارے کیا

ڈوبتے سورج سنتا جا یہ روتا گگن پکارے کیا

اس شعر میں شام تاریکی اور سورج روشنی کی علامت ہے۔یہاں شام سے جاہلیت اور سورج سے علم مراد بھی لیا جا سکتا ہے۔

پیاسے سورج کے رستے میں دریا بن کے ابلتے جا

میرے خلا کے مسافرتارے مجھ سے بچ کے نہ چلتا جا

اس شعر میں شاعر نے سورج کے ساتھ لفظ ’’پیاسا‘‘ کا اضافہ کر کے سورج کو ایک صفت عطا کر دی جس سے سورج ظلم وستم کی علامت بن گیا ہے۔ دوسرے مصرعے میں شاعر نے تارے کو نور اور ٹھنڈک کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔

ایک بے نور ستارے کی صدا ہوں میں بھی

میرے سورج ترے دامن سے جدا ہوں میں بھی

اس شعر میں شاعر نے انسان کو بے نور ستارے کی صدا سے تشبیہ دی ہے کیوں کہ سائنس کے مطابق ستارے بھی سورج سے ہی ٹوٹ کر الگ ہوئے ہیں جب کہ مائیتھولوجیکل تصور کے مطابق انسان بھی سورج یعنی خدا کا جز ہے۔جس کی وضاحت دوسرے مصرعے میں شاعر نے کی ہے۔ ستارے کی بے نور ستارے اس لیے کہا کہ ستارے کو اپنی روشنی نہیں ہوتی ہے۔ستارے سورج کی روشنی سے چمکتے ہیں۔

شہاب جعفری کی نظموں اور غزلوں کے مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شاعر کے ذہن اور تخلیقی حافظے میں کس قدر ہزاروں سال پرانی تہذیب اور سورج کے اساطیری قصّے کہانیاں نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ کس خوبی سے ان اساطیری علامتوں کو برتا ہے اور ان کا اطلاق موجودہ دور کی صورتِ حال پر کر کے قاری کے ذہن کو بھی مرتعش کیا ہے۔ شہاب جعفری کی شاعری میں سورج سے متعلق اساطیری علامتوں کی کثرت اور ان کا برمحل استعمال انہیں اپنے ہم عصر شاعروں میں منفرد ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔

بشکریہ پنجد ڈاٹ کام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

إرسال تعليق