Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Test link
اشاعتیں

پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ ماہرِ تعلیم، معروف تاریخ داں، محقق، مولانا محمد علی جوہر کے ساتھی، تحریک پاکستان کے کارکن، کئی کتب کے مصنف، ڈراما نویس، کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر، کولمبیا یونیورسٹی امریکہ کے 'وزیٹنگ پروفیسر' اور بانی چیئرمین مقتدرہ قومی زبان پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ‏

پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ ماہرِ تعلیم، معروف تاریخ داں، محقق، مولانا محمد علی جوہر کے ساتھی، تحریک پاکستان کے کارکن، کئی کتب کے مصنف، ڈراما نویس، کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر، کولمبیا یونیورسٹی امریکہ کے 'وزیٹنگ پروفیسر' اور بانی چیئرمین مقتدرہ قومی زبان پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیدائش: 20 نومبر 1903ء
وفات: 22 جنوری 1981ء

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مرحوم نہ صرف برصغیر بلکہ بین الاقوامی طور پر اپنے علم و ادب اور کام کے حوالے سے معروف تھے ۔ ان کی تصانیف پاکستان سمیت دنیا کے مشہور جامعات میں پڑھائی جاتیں ہیں۔

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی 20 نومبر 1903ء کو پٹیالی، ضلع اٹاوہ، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ ہائی اسکول اوٹاوہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1926ء میں سینٹ اسٹیفن کالج سے گریجویشن کیا۔ اس کے بعد دہلی یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد 1939ء میں پی ایچ ڈی کیا۔ 1942ء میں انہوں نے سینٹ اسٹیفن کالج، دہلی سے بی اے، تاریخ اور فارسی میں ایم اے کیا۔ بعدازاں 1940-42ء سے دہلی یونیورسٹی میں ریڈر رہے اور 1943-47ء تک اسی یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر و رئیس کلیہ فنون بھی رہے۔ 

آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز 1938ء سے بحیثیت لیکچرار سینٹ اسٹیفن کالج سے کیا۔ اسی ادارے کے شعبہ تاریخ میں لیکچرار سے ملازمت کی ابتدا کی لیکن فوراً بعد کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کے لیے برطانیہ چلے گئے اور پروفیسر ڈاکٹر وائیٹ ہیڈ جو سخت نظم و نسق کی وجہ سے مشہور تھے کی نگرانی میں The Administration of the sultanate of Delhi (سلطنت دہلی کا نظم حکومت) مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ہندوستان واپسی پر دہلی یونیورسٹی میں ریڈر مقرر ہوئے اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر اور پھر ڈین مقرر ہوئے۔

تقسیم ہند کے بعد آپ ہجرت کرکے لاہور آگئے جہاں آپ جامعہ پنجاب کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر مقرر کئے گئے۔ بعدازاں آپ حکومتی امور میں بھی رہے۔ لیاقت علی خان کے کابینہ میں ڈپٹی وزیر برائے اطلاعات و نشریات اس کے بعد وزیر تعلیم بھی رہے اور بھی دیگر منصب پر فائز رہے۔ آپ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے ممبر بھی رہے۔ آپ کولمبیا یونیورسٹی نیویارک امریکہ بحیثیت مہمان پروفیسر کے 1955-60ء تک رہے۔

قیام پاکستان کے بعد جب 1948ء میں وہ پاکستان منتقل ہوئے 
تو پہلے وہ مہاجرین و آبادکاری کے وزیر مملکت اور بعد ازاں مرکزی حکومت میں وزیر تعلیم مقرر ہوئے۔ کچھ عرصے پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر رہے۔ 1955ء میں کولمبیا یونیورسٹی، امریکہ سے بطور وزیٹنگ پروفیسر وابستہ ہوئے جہاں وہ 1960ء تک خدمات انجام دیتے رہے اور یہیں انہوں برِ صغیر کی تایخ پر شہرۂ آفاق کتاب The Muslim community of the Indo-Pakistan Sub-Continent (برعظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ) تصنیف کی۔ 

23 جون 1961ء کو آپ کو جامعہ کراچی کا وائس چانسلر بنایا گیا۔
23 جون 1961ء سے 2 اگست 1971ء تک کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔جامعہ کراچی میں وائس چانسلر کی ملازمت کے دوران انہوں نے دو اہم کتب The Struggle for Pakistan (جدوجہد پاکستان) اور The Administration of Mughal Empire (سلطنت مغلیہ کا نظم و نسق) تصنیف کیں۔ 

1971ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد اشتیاق حسین قریشی نے تین اہم تصانیف Education in Pakistan (پاکستان میں تعلیم)، Akber the founder of Mughal empire (اکبر مغلیہ سلطنت کا بانی) اور Ulema in politics (علماء سیاست میں) تحریر کیں۔

1979ء میں انہیں مقتدرہ قومی زبان (موجودہ نام ادارہ فروغ قومی زبان) پاکستان کا بانی چیئرمین مقرر کیا گیا جہاں انہیں نے اردو زبان کی ترویج و فروغ کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

جامعہ کراچی کو پروان چڑھانے میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یونیورسٹی سے تعلق ابتدائی دور سے رہا۔ جب اس جامعہ کراچی کا مسودہ قانون بنایا جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جب موجودہ جامعہ کراچی کیلئے اراضی کے حصول کا مرحلہ آیا تو اس میں بھی آپ کا عمل دخل رہا۔ جب جامعہ کراچی کا نقشہ جو کہ فرانسیسی ماہرین نے تیار کیا ان ماہرین کو آپ ہی کے توسط سے ان کی خدمات جامعہ کراچی کو حاصل ہوئی۔ 

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی نے نہ صرف جامعہ کراچی کے تعمیرات میں تیزی سے اضافہ کیا بلکہ موجود شعبوں میں توسیع بھی کی اور نئے شعبوں کا قیام بھی عمل میں آیا۔ مثلاً عمرانیات کا شعبہ، سماجی بہبود کا شعبہ، شماریات کا شعبہ، فارمیسی کا شعبہ، جینیٹکس کا شعبہ، تاریخ عمومی کا میوزیم، پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری (موجودہ حسین ابراہیم جمال) کا شعبہ اور اس کا سربراہ ممتاز سائنسدان پروفیسر سلیم الزماں صدیقی مرحوم کو بنایا۔ 

علاوہ ازیں آپ ہی کے دور میں پی ایچ ڈی اور ایم فل اردو زبان میں کرنے کی اجازت دی گئی۔ بک بینک قائم کیا۔ آپ نے نہ صرف تعمیر و توسیع کی طرف توجہ دی بلکہ جامعہ کراچی میں اعلیٰ تعلیمی معیار قائم کرنے کی کوشش کی اور اس جامعہ میں ایسے اساتذہ کو لانے کی سعی کی جو تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق کا اعلیٰ معیار قائم کرسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود اساتذہ کو اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے مواقع فراہم کئے۔ 

ڈاکٹر قریشی اپنا دس سالہ شاندار دور گزارنے کے بعد 1971ء میں اپنے منصب سے سبکدوش ہوگئے۔ شیخ الجامعہ کا منصب بجائے خود ان کیلئے وجہ عزت نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب کتنے ہی مناصب جلیلہ کو اس سے پہلے رونق بخش چکے تھے ان کی جامعہ کراچی سے وابستگی محض واجبی یا منصبی تقاضے کے تحت نہ تھی بلکہ جامعہ کراچی کو قبائے وجود عطاء کرنے والوں میں وہ شامل ہیں۔ 

بعد ازاں 1973ء میں کیمبرج یونیورسٹی کے مہمان پروفیسر بھی رہے اس کے ساتھ ساتھ علمی، ادبی اور ملک و ملت کی خدمت کیلئے مسلسل کام کرتے رہے۔ 

انہوں نے لاتعداد مضامین اور مقالات بھی تحریر کئے۔ آپ کی علمی، ادبی اور قومی خدمت کی بناء پر 1980ء میں حکومت پاکستان نے ہلال پاکستان کے اعزاز سے نوازا۔ 

اس کے علاوہ آپ مقتدرہ قومی زبان کے سربراہ رہے۔ آپ اکادمی ادبیات کے بھی سربراہ رہے۔ آپ نے بے انتہا تصنیفی اور تلیفی کام کئے۔ 

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ایک سچے مسلمان تھے۔ شیخ الجامعہ بننے کے فوراً بعد جامعہ کراچی کے نصاب میں اسلامی نظریہ حیات کو لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل کروایا۔ ڈاکٹر صاحب کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ اردو زبان و ادب سے خصوصی لگائو تھا۔ وہ اردو زبان کی ترویج و ترقی کیلئے ہمیشہ دل و جان سے کوشش کرتے رہے۔ 

تدریس و تعلیم کے ساتھ جامعہ کی مختلف مجالس کی کارروائی کی روداد وغیرہ میں اردو کو قرار واقعی اہمیت دی گئی۔ ان کی خواہش تھی کہ اردو زبان کو عوامی اور سرکاری سطح پر رواج حاصل ہو مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین کی حیثیت سے اردو کے نفاذ اور ترقی کیلئے جو خدمات انجام دیں وہ تاریخ کا حصہ ہے آپ نے اردو زبان کے فروغ کیلئے نمایاں کام کیا۔

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے اعلیٰ سول ایوارڈ ستارۂ پاکستان سے نوازا۔ پاکستان پوسٹ نے 20 نومبر 2001ء کو ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی ادبی خدمات کے صلے میں یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔

22 جنوری 1981ء کو صبح ساڑھے چھ بجے اسلام آباد میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد آپ کو پولی کلینک اسلام آباد میں داخل کیا گیا جہاں آپ کا انتقال ہوگیا۔ آپ کو آپ کی وصیت کے مطابق کراچی کے گلشن اقبال کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تصانیف

اردو کتب

افکار و اذکار
معلم اسود
ملاء اعلٰی
ہمزاد
نقش آخر
نیم شب
صید زبوں
نفرت کا بیج
مٹھائی کی ٹوکری
گناہ کی دیوار
بت تراش (ڈراما)
بند لفافہ
کٹھ پتلیاں

انگریزی کتب

The Religion of Peace (امن کا مذہب)
The Struggle for Pakistan (جدوجہد پاکستان)
The Administration of Mughal Empire (سلطنت مغلیہ کا نظمِ حکومت)
The Administration of the Sultanate of Delhi (سلطنت دہلی کا نظمِ حکومت)
The Muslim community of the indo-Pakistan sub-continent (برعظیم پاک و ہند کی ملت اسلامیہ)
Education in Pakistan (پاکستان میں تعلیم)
Akber the founder of Mughal empire (اکبر مغلیہ سلطنت کا بانی)
Ulema in politics (علماء سیاست میں)
A Short History of Pakistan (پاکستان کی مختصر تاریخ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب و انتخاب و پیشکش : نیرہ نور خالد

ایک تبصرہ شائع کریں